اقدام قتل کا الزام، کیا محمد بن سلمان ساکھ بچا پائیں گے؟
8 اگست 2020
کینیڈا میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے سابق سعودی وزیر سعد الجابری نے الزام عائد کیا ہے کہ سعودی ولی عہد سلطنت محمد بن سلمان انہیں قتل کرنے کے لیے وہی ٹیم روانہ کی، جس نے ترکی میں جمال خاشقجی کو ہلاک کیا تھا۔
اشتہار
سعد الجابری سابق سعودی ولی عہد محمد بن نائف کے قریبی ساتھی رہ چکے ہیں۔ سن دو ہزار سترہ میں محمد بن سلمان نے بن نائف کو ان کے عہدے سے ہٹا کر جیل میں ڈال دیا تھا۔ تب الجابری وہاں سے اپنی جان بچا کر کینیڈا میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے تھے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان کے خلاف عدالتی کارروائی کا امکان کم ہے لیکن ان الزامات سے ان کی ساکھ کو جو نقصان پہنچنا تھا، وہ پہنچ چکا ہے۔
عدالت میں درخواست جمع
الجابری نے واشنگٹن ڈی سی کی ایک عدالت میں محمد بن سلمان اور ان کے چوبیس ساتھیوں کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے۔ الزام ہے کہ ان افراد نے ایک خصوصی دستہ کینیڈا روانہ کیا، جن میں جائے وقوعہ سے ثبوت و شواہد مٹانے والے ماہرین بھی شامل تھے۔ الزام عائد کیا گیا ہے کہ محمد بن سلمان انہیں قتل کرنے کے لیے وہی ٹیم روانہ کی، جس نے ترکی میں جمال خاشقجی کو ہلاک کیا تھا۔
الجابری کے وکلاء کا کہنا ہے کہ قتل کا یہ منصوبہ اس وقت آشکار ہوا، جب کینیڈا کی بارڈر پولیس نے اس مشتبہ ٹیم کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی کیونکہ ان افراد کا کہنا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو نہیں جانتے۔
عدالت میں جمع کرائی گئی 107 صفحات پر مبنی درخواست میں یہ بھی لکھا ہے کہ کینیڈین باڈر پولیس نے ان افراد سے دو بیگ بھی برآمد کیے، جن میں فرانزک ٹولز شامل تھے۔
سعودی اصلاحات یا پھر اقتدار کی رسہ کشی
سعودی عرب میں درجنوں شہزادوں اور سابق وزراء کو بد عنوانی کے الزامات کے تحت حالیہ دنوں میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کیا سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے ممکنہ حریفوں کو کمزور کر کے حکومت پر گرفت مضبوط کر سکیں گے؟
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
انسداد بد عنوانی کمیٹی کا قیام
سعودی دارالحکومت ریاض میں انسداد بد عنوانی کی غرض سے شروع کی جانے والی نئی مہم کے دوران اب تک قریب گیارہ سعودی شہزادے، اڑتیس وزراء اور متعدد معروف کاروباری افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ یہ گرفتاریاں ہفتے کے روز شاہ سلمان کی جنب سے اپنے بیٹے اور ولی عہد محمد بن سلمان کی سربراہی میں بد عنوانی کے سد باب کے لیے ایک کمیٹی کے قیام کے بعد عمل میں لائی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/B. Press
ملکی بہتری یا پھر ممکنہ حریفوں کی زباں بندی؟
نئی تشکیل دی گئی اس کمیٹی کے پاس مختلف طرز کے اختیارات ہیں۔ ان اختیارات میں گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا، اثاثوں کو منجمد کرنا اور سفر پر پابندی عائد کرنا شامل ہے۔ پرنس سلمان نے حال ہی میں ملک سے بد عنوانی کے خاتمے کے عزم کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/Saudi Press Agency
شہزادہ الولید بن طلال کے ستارے گردش میں
الولید کا شمار مشرق وسطی کی امیر ترین شخصیات میں ہوتا ہے ۔ انہوں نے ٹویٹر، ایپل، روپرٹ مرڈوک، سٹی گروپ، فور سیزن ہوٹلز اور لفٹ سروس میں بھی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے۔ وہ سعودی شہزادوں میں سب سے بے باک تصور کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سرکاری تصدیق نہیں ہوئی
گرفتار شدہ افراد میں اطلاعات کے مطابق سابق وزیر خزانہ ابراہیم الاصف اور شاہی عدالت کے سابق سربراہ خالد التویجری بھی شامل ہیں۔ تاہم اس بارے میں سعودی حکومت کا کوئی بیان ابھی تک سامنے نہیں آیا ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر ان گرفتاریوں کی تصدیق کی گئی ہے۔
تصویر: Getty Images
اتنا بہت کچھ اور اتنا جلدی
دوسری جانب نیشنل گارڈز کی ذمہ داری شہزادہ مِتعب بن عبداللہ سے لے کر خالد بن ایاف کے سپرد کر دی گئی ہے۔ اس پیش رفت کو شاہ سلمان اور ان کے بیٹوں کی جانب سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کی ایک کوشش بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ ادھر لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے بھی اپنے عہدے سے استعفے کا اعلان کر دیا ہے اور وہ ریاض ہی میں موجود ہیں۔
تصویر: Reuters/M. al-Sayaghi
5 تصاویر1 | 5
کینیڈا کے پبلک سیفٹی منسٹر بل بلیئر نے ان الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ سعودی حکام نے بھی ابھی تک اس بارے میں کوئی وضاحت یا بیان جاری نہیں کیا۔
الجابری کے وکلاء کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ محمد بن سلمان نے ان کے موکل کو واٹس ایپ کے ذریعے قتل کی دھمکیاں بھیجیں، جن کے مطابق الجابری کے خلاف قتل کا فتویٰ جاری کرایا گیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ الجابری کے سعودی عرب میں مقیم دو بچے زیر حراست ہیں۔
محمد بن سلمان کی ناکام کوششیں
جرمن ٹھنک ٹینک ایس ڈبلیو پی سے وابستہ سعودی امور کے ماہر گیڈو شٹائن برگ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا ہے کہ سعودی وزارت داخلہ میں ایک طویل عرصے تک سنیئر عہدوں پر فائز رہنے والے الجابری ملکی سیاست پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ سعودی خارجہ پالیسی کے خفیہ رازوں سے واقف ہیں۔
گیڈو شٹائن برگ کے مطابق، ''اسی لیے محمد بن سلمان انہیں (الجابری کو) واپس لانا چاہتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے وہ ہر ممکن کوشش کر چکے ہیں۔‘‘
نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی حکومت نے سن دو ہزار سترہ میں الجابری کے بین الاقوامی وارنٹ جاری کیے تھے لیکن کینیڈین پولیس کو شبہ تھا کہ اس کے سیاسی محرکات ہیں، جس کی وجہ سے الجابری کی سعودی عرب سپردگی کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
جمعرات سے سعودی عرب میں ایک ہیش ٹیگ گردش کر رہا ہے، جس کے مطابق الجابری کو بدعنوان قرار دیا جا رہا ہے۔ سعودی عرب میں سوشل میڈیا پر ریاستی مداخلت انتہائی زیادہ ہے اور حکومت اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔
'ساکھ تو خراب ہو گئی‘
گلوبل تھنک ٹینک کارنیگی اینڈومنٹ فار پیس میں مشرق وسطیٰ کے پروگرام سے وابستہ فیلو یاسمین فاروق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ سعودی میڈیا کے ردعمل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ ان الزامات کے بعد ریاض حکومت اپنی ساکھ خراب ہونے کے بارے میں فکر مند ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے نہ صرف سعودی حکومت کو ملکی سطح پر دباؤ کا سامنا کرنے پڑے گا بلکہ امریکا سے بھی تعلقات کشیدہ ہونے کا اندیشہ ہے۔
شٹائن برگ کے مطابق چونکہ الجابری امریکی شہری نہیں ہیں، اس لیے امریکا میں وہ یہ مقدمہ نہیں چلا سکیں گے، ''وہ (الجابری) امریکا کے رہائشی بھی نہیں۔ وہ صرف (امریکا کے) ایک اہم سابق اتحادی ہیں۔‘‘
تاہم سعودی ایکٹیویسٹ عبدالعزیز الموئد کا کہنا ہے کہ محمد بن سلمان اپنی اور ملک کی عزت بچانے کی خاطر ان الزامات کا جواب دینے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی ولی عہد امریکی نظام انصاف کو یکسر نظر انداز نہیں کر سکیں گے۔
یاسیمن فاروق کا کہنا ہے کہ اس مقدمے پر کارروائی بے شک نہ ہو لیکن 'ولی عہد اور سعودی عرب کی ساکھ مزید خراب ہو گئی ہے‘۔
ٹام ایلنسن (ع ب، ش ج)
شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی سفارتی تنازعے
سعودی عرب اور کینیڈا کے مابین ایک غیر عمومی اور شدید سفارتی تنازعہ جاری ہے۔ لیکن شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد بننے کے بعد یہ کوئی پہلا سفارتی تنازعہ نہیں۔ دیکھیے کن دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی بحران پیدا ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/SPA
کینیڈا کے ساتھ تنازعہ
شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں تازہ ترین سفارتی تنازعہ کینیڈا کے ساتھ جاری ہے۔ اس سفارتی تنازعے کی وجہ کینیڈا کی جانب سے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی رہائی کے لیے کی گئی ایک ٹویٹ بنی۔ سعودی عرب نے اس بیان کو ملکی داخلی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے کینیڈا کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط ختم کر دیے۔
تصویر: picture alliance/AP/G. Robins/The Canadian Press
برلن سے سعودی سفیر کی واپسی
نومبر سن 2017 میں سعودی عرب نے اس وقت کے جرمن وزیر خارجہ زیگمار گابریئل کی جانب سے یمن اور لبنان میں سعودی پالیسیوں پر کی گئی تنقید کے جواب میں برلن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ جرمن حکومت سعودی سفیر کی دوبارہ تعیناتی کی خواہش کا اظہار بھی کر چکی ہے تاہم سعودی عرب نے ابھی تک ایسا نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Fischer
قطر کے ساتھ تنازعہ
گزشتہ برس قطری تنازعے کا آغاز اس وقت ہوا جب سعودی اور اماراتی چینلوں نے قطر پر دہشت گردوں کی معاونت کرنے کے الزامات عائد کرنا شروع کیے تھے۔ ریاض حکومت اور اس کے عرب اتحادیوں نے دوحہ پر اخوان المسلمون کی حمایت کا الزام عائد کیا۔ ان ممالک نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کے علاوہ اس کی ناکہ بندی بھی کر دی تھی۔ یہ تنازعہ اب تک جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/O. Faisal
لبنان کے ساتھ بھی تنازعہ
سعودی عرب اور لبنان کے مابین سفارتی تنازعہ اس وقت شروع ہوا جب لبنانی وزیر اعظم سعد الحریری نے دورہ ریاض کے دوران اچانک استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا۔ سعودی عرب نے مبینہ طور پر الحریری کو حراست میں بھی لے لیا تھا۔ فرانس اور عالمی برادری کی مداخلت کے بعد سعد الحریری وطن واپس چلے گئے اور بعد ازاں مستعفی ہونے کا فیصلہ بھی واپس لے لیا۔
تصویر: picture-alliance/ MAXPPP/ Z. Kamil
تہران اور ریاض، اختلافات سفارتی تنازعے سے بھی بڑے
سعودی حکومت کی جانب سے سعودی شیعہ رہنما نمر باقر النمر کو سزائے موت دیے جانے کے بعد تہران میں مظاہرین سعودی سفارت خانے پر حملہ آور ہوئے۔ تہران حکومت نے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کچھ حصوں میں آگ لگانے والے پچاس سے زائد افراد کو گرفتار بھی کر لیا۔ تاہم سعودی عرب نے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔
تصویر: Reuters/M. Ghasemi
’مسلم دنیا کی قیادت‘، ترکی کے ساتھ تنازعہ
سعودی عرب اور ترکی کے تعلقات ہمیشہ مضبوط رہے ہیں اور دونوں ممالک اقتصادی اور عسکری سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہے ہیں۔ تاہم شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان نے کہ ریاض کا مقابلہ ’ایران، ترکی اور دہشت گرد گروہوں‘ سے ہے، دونوں ممالک کے تعلقات کو شدید متاثر کیا ہے۔ محمد بن سلمان کے مطابق ایران اپنا انقلاب جب کہ ترکی اپنا طرز حکومت خطے کے دیگر ممالک پر مسلط کرنے کی کوشش میں ہے۔
مصر کے ساتھ تنازعے کے بعد تیل کی فراہمی روک دی
شہزادہ محمد بن سلمان کے ولی عہد مقرر ہونے سے قبل اکتوبر سن 2016 میں مصر اور سعودی عرب کے تعلقات اقوام متحدہ میں ایک روسی قرار داد کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ بعد ازاں مصر نے بحیرہ احمر میں اپنے دو جزائر سعودی عرب کے حوالے کر دیے تھے جس کی وجہ سے مصر میں مظاہرے شروع ہو گئے۔ سعودی عرب نے ان مظاہروں کے ردِ عمل میں مصر کو تیل کی مصنوعات کی فراہمی روک دی۔
تصویر: picture-alliance/AA/Egypt Presidency
سعودی عرب اور ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘
مارچ سن 2015 میں سویڈن کی وزیر داخلہ نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید کرتے ہوئے ریاض حکومت کی پالیسیوں کو ’قرون وسطیٰ کے دور کے ہتھکنڈے‘ قرار دیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے سٹاک ہوم سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔