'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ نے جرمن دفتر استغاثہ ميں شکايت درج کرائی ہے، جس ميں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان پر انسانيت کے خلاف جرائم کے الزامات عائد کيے گئے ہيں۔ کيا اس شکايت کی بنياد پر سعودی شہزادے کے خلاف مقدمہ چل سکے گا؟
اشتہار
'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ (RSF) نے تين سو سے زائد صفحات پر مشتمل شکايت درج کرائی، جس ميں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور حکومت کی ديگر شخصيات پر انسانيت کے خلاف جرائم جيسے سنگين الزامات عائد کيے گئے ہيں۔ ادارے نے ايک سال مختلف عينی شاہدين اور متاثرين سے شواہد اکھٹے کيے، جس کے بعد جرمن وفاقی دفتر استغاثہ سے رجوع کيا گيا۔
شکايت ميں صحافی جمال خاشقجی کا استنبول ميں سعودی قونصل خانے ميں قتل کا بھی ذکر ہے۔ علاوہ ازيں چونتيس صحافيوں کی جبری حراست کا حوالہ بھی ديا گيا ہے، جن ميں بلاگر رائف بداوی بھی شامل ہيں۔ بداوی نے سعودی حکومت پر تنقيد کی تھی، جس پر انہيں دس سال قيد کی سزا سنا دی گئی تھی۔ يہ امر اہم ہے کہ ورلڈ پريس فريڈم انڈيکس ميں 180 ممالک کی درجہ بندی ميں سعودی عرب کی پوزيشن 170 ويں ہے۔
جرمنی ميں ہی شکايت کيوں؟
سن 2002 ميں منظور کردہ VStGB نامی جرمن قانون کے مطابق انسانيت کے خلاف جرائم کی تشريح ايسے کی گئی ہے کہ 'کسی بھی سويلين آبادی کے خلاف وسيع پيمانے پر اور منظم حملے‘۔ آرٹيکل ون جرمن استغاثہ کو يہ اختيار ديتا ہے کہ وہ اور عدالتيں ان جرائم پر بھی کارروائی کر سکتے ہيں ، جو جرمنی سے باہر سرزد ہوئے اور جرمن شہرويوں کے نہيں بلکہ ديگر ملکوں کے شہريوں کے خلاف ہوئے۔
سعودی حکام کے خلاف يہ قانونی کارروائی دی ہيگ کی بين الاقوامی فوجداری عدالت ميں بھی ہو سکتی تھی مگر چوں کہ سعودی عرب آئی سی سی کا رکن نہيں اور رياض حکومت نے اس عدالت کی بنياد بننے والے معاہدے پر دستخط نہيں کيے، اس ليے يہ ممکن نہيں۔ آئی سی سی ميں پھر بھی کارروائی ممکن ہے مگر اسی صورت جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس عدالت سے رجوع کرے۔
جرمن وزير خارجہ ہائيکو ماس نے گزشتہ برس اکتوبر ميں اپنی ايک تقرير ميں کہا تھا، ''کئی مرتبہ سنگين جرائم پر کارروائی ممکن نہيں ہو پاتی۔ اس کی جزوی وجہ يہ ہے کہ سلامتی کونسل کے تين مستقل ارکان چين، روس اور امريکا، آئی سی سی کو مانتے ہی نہيں۔‘‘
کيا جرمنی ميں اس شکايت پر قانونی کارروائی ہو گی؟
برلن ميں قائم غير سرکاری تنظيم يورپی سينٹر برائے آئينی و انسانی حقوق کے ڈائريکٹر وولف گانگ کيلک کے مطابق ماضی ميں جرمن حکام يہ بات واضح کر چکے ہيں کہ دنيا ميں ہر اس جگہ جہاں مبينہ طور پر انسانی حقوق کی خلاف ورزياں جاری ہيں، ان کی تفتيش ممکن نہيں۔
کيلک کے بقول ايسے معاملات ميں سفارتی تعلقات اہم ہوتے ہيں، ''انسانی حقوق کی خلاف ورزياں کرنے والے اگر طاقت ور ہوں، تو معيارات مختلف ہوتے ہيں۔ يہ بھی حقيقت ہے کہ سعودی عرب کافی طاقت ور معيشت ہے۔‘‘
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟