پاکستانی قومی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر محمد عامر نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ اپنی توجہ محدود اوورز کے میچوں پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔
اشتہار
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اہم ستون محمد عامر نے جمعے کے دن ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ محدود اوورز کے میچوں میں اپنی توجہ مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ نو سال قبل سپاٹ فکسنگ کی زد میں آنے والے ستائیس سالہ اس کھلاڑی کے کیریئر کو ایک دھچکا لگا تھا۔ یہ الزام ثابت ہونے پر انہیں پانچ برس کی پابندی بھگتنا پڑی تھی، جس کی وجہ سے دنیائے کرکٹ میں پاکستان کی جگ ہنسائی تو ہوئی ہی لیکن ساتھ ہی عامر اپنا بھرپور ٹیلنٹ دیکھانے میں بھی ناکام رہے۔
محمد عامر کو پاکستان میں وسیم اکرم کے بعد بائیں بازو کا بہترین بولر قرار دیا جاتا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں عامر کے حوالے سے بیان کیا گیا کہ وہ سفید گیند کی کرکٹ پر زیادہ دھیان چاہتے ہیں۔ عامر نے کہا، ''کرکٹ کے روایتی فارمیٹ میں پاکستانی ٹیم کی عمدہ کارکردگی کا حصہ بننے پر مجھے بہت زیادہ عزت محسوس ہوئی۔‘‘
محمد عامر اس وقت انگلینڈ میں ہیں، جہاں وہ ایسکس کے لیے انگلش کاؤنٹی کھیل رہے ہیں۔ انہوں نے سترہ برس کی عمر میں بین الاقوامی کرکٹ میں قدم رکھا تھا اور اپنے قدرتی ٹیلنٹ کی وجہ سے وہ ناقدین کی نظروں میں آ گئے تھے۔ سن دو ہزار نو میں انہوں نے سری لنکا کے خلاف کھیلے گئے اپنے اولین ٹیسٹ میچ میں ہی چھ کھلاڑیوں کو آؤٹ کر دیا تھا۔
سن دو ہزار دس میں عامر نے انگلینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں بھی عمدہ کارکردگی دکھائی۔ انگلینڈ کے خلاف چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں انہوں نے بیس وکٹیں حاصل کیں لیکن لارڈز میں کھیلے گئے چوتھے ٹیسٹ میچ میں عامر اور دیگر دو پاکستانی کھلاڑیوں سلمان بٹ اور محمد آصف پر اسپاٹ فکسنگ کے الزامات لگے، جو بعد ازاں ثابت بھی ہو گئے۔
یوں محمد عامر نے تب دیگر دونوں پاکستانی کھلاڑیوں کے ساتھ انگلینڈ میں مختصر جیل بھی کاٹی۔ انہی الزامات کی وجہ سے ان پر پانچ سال کی پابندی عائد کر دی گئی۔ عامر نے پابندی کے بعد سن دو ہزار سولہ میں بین الاقوامی کرکٹ میں دوبارہ قدم رکھا اور ایک مرتبہ پھر عمدہ کارکردگی دکھائی۔
مجموعی طور پر محمد عامر نے 36 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی اور 116 وکٹیں حاصل کیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر عامر طویل عرصے تک پابندی کا شکار نہ رہتے تو ان کا ٹیسٹ کیریئر بھی تابناک ہوتا۔ عامر نے بہترین بولنگ کا مظاہرہ ویسٹ انڈیز کے خلاف کنگسٹن میں کھیلے گئے ٹیسٹ میں کیا، تب انہوں نے ایک اننگز میں چوالیس رنز دے کر چھ کھلاڑیوں کو پویلین کی راہ دکھلائی تھی۔ انہوں نے اپنا آخری ٹیسٹ میچ رواں برس ہی جنوبی افریقہ کے خلاف کھیلا۔
ع ب / ا ا / خبر رساں ادارے
بین الاقوامی کرکٹ کے متنازع ترین واقعات
آسٹریلوی کرکٹ ٹیم کا حالیہ بال ٹیمپرنگ اسکینڈل ہو یا ’باڈی لائن‘ اور ’انڈر آرم باؤلنگ‘ یا پھر میچ فکسنگ، بین الاقوامی کرکٹ کی تاریخ کئی تنازعات سے بھری پڑی ہے۔ دیکھیے عالمی کرکٹ کے چند متنازع واقعات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: REUTERS
2018: آسٹریلوی ٹیم اور ’بال ٹیمپرنگ اسکینڈل‘
جنوبی افریقہ کے خلاف ’بال ٹیمپرنگ‘ اسکینڈل کے نتیجے میں آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے کپتان اسٹیون اسمتھ اور نائب کپتان ڈیوڈ وارنر پرایک سال کی پابندی عائد کردی ہے۔ کیپ ٹاؤن ٹیسٹ میں آسٹریلوی کھلاڑی کیمرون بن کروفٹ کو کرکٹ گراؤنڈ میں نصب کیمروں نے گیند پر ٹیپ رگڑتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔ بعد ازاں اسٹیون اسمتھ اور بن کروفٹ نے ’بال ٹیمپرنگ‘ کی کوشش کا اعتراف کرتے ہوئے شائقین کرکٹ سے معافی طلب کی۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/H. Krog
2010: اسپاٹ فکسنگ، پاکستانی کرکٹ کی تاریخ کی بدترین ’نو بال‘
سن 2010 میں لندن کے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ پر سلمان بٹ کی کپتانی میں پاکستانی فاسٹ باؤلر محمد عامر اور محمد آصف نے جان بوجھ کر ’نوبال‘ کروائے تھے۔ بعد میں تینوں کھلاڑیوں نے اس جرم کا اعتراف کیا کہ سٹے بازوں کے کہنے پر یہ کام کیا گیا تھا۔ سلمان بٹ، محمد عامر اور محمد آصف برطانیہ کی جیل میں سزا کاٹنے کے ساتھ پانچ برس پابندی ختم کرنے کے بعد اب دوبارہ کرکٹ کھیل رہے ہیں۔
تصویر: AP
2006: ’بال ٹیمپرنگ کا الزام‘ انضمام الحق کا میچ جاری رکھنے سے انکار
سن 2006 میں پاکستان کے دورہ برطانیہ کے دوران اوول ٹیسٹ میچ میں امپائرز کی جانب سے پاکستانی ٹیم پر ’بال ٹیمپرنگ‘ کا الزام لگانے کے بعد مخالف ٹیم کو پانچ اعزازی رنز دینے کا اعلان کردیا گیا۔ تاہم پاکستانی کپتان انضمام الحق نے بطور احتجاج ٹیم میدان میں واپس لانے سے انکار کردیا۔ جس کے نتیجے میں آسٹریلوی امپائر ڈیرل ہارپر نے انگلینڈ کی ٹیم کو فاتح قرار دے دیا۔
تصویر: Getty Images
2000: جنوبی افریقہ کے کپتان ہنسی کرونیے سٹے بازی میں ملوث
سن 2000 میں بھارت کے خلاف کھیلے گئے میچ میں سٹے بازی کے سبب جنوبی افریقہ کے سابق کپتان ہنسی کرونیے پر تاحیات پابندی عائد کردی گئی۔ دو برس بعد بتیس سالہ ہنسی کرونیے ہوائی جہاز کے ایک حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ ہنسی کرونیے نے آغاز میں سٹے بازی کا الزام رد کردیا تھا۔ تاہم تفتیش کے دوران ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کپتان کی جانب سے میچ ہارنے کے عوض بھاری رقم کی پشکش کی گئی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Zieminski
2000: میچ فکسنگ: سلیم ملک پر تاحیات پابندی
سن 2000 ہی میں پاکستان کے سابق کپتان سلیم ملک پر بھی میچ فکسنگ کے الزام کے نتیجے میں کرکٹ کھیلنے پر تاحیات پابندی عائد کی گئی۔ جسٹس قیوم کی تفتیشی رپورٹ کے مطابق سلیم ملک نوے کی دہائی میں میچ فکسنگ میں ملوث پائے گئے تھے۔ پاکستانی وکٹ کیپر راشد لطیف نے سن 1995 میں جنوبی افریقہ کے خلاف ایک میچ کے دوران سلیم ملک کے ’میچ فکسنگ‘ میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
1981: چیپل برادران اور ’انڈر آرم‘ گیندبازی
آسٹریلوی گیند باز ٹریور چیپل کی ’انڈر آرم باؤلنگ‘ کو عالمی کرکٹ کی تاریخ میں ’سب سے بڑا کھیل کی روح کے خلاف اقدام‘ کہا جاتا ہے۔ سن 1981 میں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ پر نیوزی لینڈ کے خلاف آخری گیند ’انڈر آرم‘ دیکھ کر تماشائی بھی دنگ رہ گئے۔ آسٹریلوی ٹیم نے اس میچ میں کامیابی تو حاصل کرلی لیکن ’فیئر پلے‘ کا مرتبہ برقرار نہ رکھ پائی۔
تصویر: Getty Images/A. Murrell
1932: جب ’باڈی لائن باؤلنگ‘ ’سفارتی تنازعے‘ کا سبب بنی
سن 1932 میں برطانوی کرکٹ ٹیم کا دورہ آسٹریلیا برطانوی کپتان ڈگلس جارڈین کی ’باڈی لائن باؤلنگ‘ منصوبے کی وجہ سے مشہور ہے۔ برطانوی گیند باز مسلسل آسٹریلوی بلے بازوں کے جسم کی سمت میں ’شارٹ پچ‘ گیند پھینک رہے تھے۔ برطانوی فاسٹ باؤلر ہیرالڈ لارووڈ کے مطابق یہ منصوبہ سر ڈان بریڈمین کی عمدہ بلے بازی سے بچنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ تاہم یہ پلان دونوں ممالک کے درمیان ایک سفارتی تنازع کا سبب بن گیا۔