محمد مُرسی کے حق میں مظاہرے کے دوران تین خواتین ہلاک
20 جولائی 2013دریائے نیل کے کنارے واقع شہر منصورہ کے ایک ہسپتال میں طبی ذرائع نے بتایا کہ بلندی سے گات لگا کی گئی فائرنگ اور خنجروں کے وار سے تین افراد ہلاک ہوئے اور دیگر سات زخمی ہوئے ہیں۔ ہسپتال کے منتظم عدیل سعید نے بتایا کہ مرنے والی تمام خواتین ہیں۔ سابق صدر کے ایک زخمی حامی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بذریعہ ٹیلی فون بتایا کہ ان کے ہزاروں ساتھی منصورہ کی تنگ گلیوں میں مظاہرہ کر رہے تھے کہ مبینہ ’’ٹھگ‘‘ بندوقوں، خنجروں اور پتھروں کے ساتھ حملہ آور ہوگئے۔ مصر میں ملک کے پہلے منتخب صدر محمد مُرسی کی دو ہفتے سے بھی زائد عرصہ قبل فوج کے ہاتھوں اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے تناؤ کی صورتحال برقرار ہے۔
مُرسی کی بے دخلی کے لیے قاہرہ میں ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا تھا اور اب ان کے ہزاروں حامی انہیں دوبارہ برسراقتدار لانے کے لیے مظاہرہ کر رہے ہیں۔ جمعہ کو مُرسی کے حامیوں کے مظاہرے سے قبل فوج نے خبردار کر دیا تھا کہ مشتعل مظاہرین کا مقابلہ کیا جائے گا۔ فوجی بیان کے مطابق، ’’جو کوئی بھی جمعہ کے مظاہرے میں تشدد کرے گا وہ اپنی جان خطرے میں ڈالے گا اور اس کے ساتھ قانون کے دائرے میں سختی سے نمٹا جائے گا۔‘‘
فوج کی جانب سے تعینات کیے گئے عبوری صدر عدلی منصور ملک کو مستحکم کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ان کے مخالفین مصر کو بحرانوں کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ سرکاری ٹیلی وژن پر نشر کی گئی تقریر میں انہوں نے کہا، ’’ ہم سلامتی کے حصول کی جنگ آخر تک لڑتے رہیں گے، ہم انقلاب کو محفوظ رکھیں گے۔‘‘
قاہرہ کے تحریر اسکوائر پر جمعے کو مُرسی کی برطرفی کا ایک مرتبہ پھر جشن منایا گیا۔ قاہرہ ہی میں مسجد رابعہ العدويہ میں مُرسی کے ہزاروں حامی جمع ہوئے جنہوں نے بعد میں ری پبلکن گارڈز کے ہیڈکوارٹرز کی جانب بڑھنےکی کوشش کی۔ یاد رہے کہ ری پبلکن گارڈز کی جانب سے مُرسی کے حامیوں پر فائرنگ کے واقعے میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ فوج نے مظاہرین کو آگے بڑھنے نہیں دیا۔ اخوان المسلمون کے ایک 45 سالہ حامی شہری نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے نمائندے سے بات چیت میں اس امید کا اظہار کیا کہ مُرسی جلد ہی دوبارہ ملک کے صدر منتخب ہوں گے۔
جمعے کے روز اخوان المسلمون کی کال پر مصر کے دوسرے بڑے شہر اسکندریہ میں بھی مظاہرے ہوئے۔ اخوان المسلمون کی قیادت اور خود سابق صدر مُرسی کو فوج نے نظر بند کر رکھا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر نوی پلے نے ان گرفتاریوں پر تشویش ظاہر کی ہے۔