1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مدر ٹریسا چیرٹی میں بچوں کو فروخت کیا گیا، بھارتی پولیس

6 جولائی 2018

پولیس کے مطابق حالیہ چند ہفتوں کے دوران بھارت کے مشرق میں واقع ’مدر ٹریسا چیرٹی‘ کی طرف سے چار نومولود بچوں کو فروخت کیا گیا۔ دوسری جانب ادارے کی انتظامیہ نے ان الزامات کو ’حیران کن‘ قرار دیا ہے۔

Indien - Mother Teresa Charity - Missionare
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. Das

پولیس کے مطابق انہوں نے جھاڑکھنڈ کے شہر رانچی میں واقع  مدر ٹریسا چیرٹی کی ایک راہبہ اور اس شیلٹر کے ایک ملازم کو گرفتار کرتے ہوئے نومولود بچوں کو فروخت کرنے والے ایک گروہ کا سراغ لگا لیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ کارروائی ریاستی چائلڈ ویلفئر کمیٹی کی سفارشات پر کی تھی۔ اس کمیٹی نے ایک ایسے بچے کی فروخت کے متعلق معلومات فراہم کی تھیں جس کی عمر محض دو ہفتہ تھی۔

پولیس سربراہ شیمانند مانڈل کا کہنا تھا، ’’ہمیں پتا چلا ہے کہ اسٹاف کی جانب سے گزشتہ دو ماہ کے دوران چار نومولود بچوں کو فروخت کیا گیا۔ اس طرح کے مزید کیسز سامنے آ سکتے ہیں کیوں کہ سن دو ہزار پندرہ میں بھی اسی طرح کی شکایات سامنے آئی تھیں۔‘‘

پولیس افسر مانڈل کا مزید کہنا تھا کہ تین بچوں کو دو لاکھ بیس ہزار روپے کے عوض فروخت کیا گیا جبکہ ایک بچے کے پیسے ابھی ملزمان نے وصول کرنے تھے۔ اس فلاحی تنظیم کے مقامی ترجمان نے ان لزامات کی تردید کی ہے جب کہ کولکتہ میں مدر ٹریسا چیرٹی کے مرکزی دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا، ’’ایسا کبھی بھی نہیں ہونا چاہیے۔ یہ ہماری اخلاقی اقدار کے برعکس ہے۔ ہم اس معاملے کا انتہائی بغور جائزہ لے رہے ہیں۔ اگر اس طرح کا کوئی واقع سامنے آیا تو فوری احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں گی۔‘‘

بچوں کے محافظ بچوں کے اسمگلر بن گئے

اس مشنری ادارے نے سن دو ہزار پندرہ کے بعد نومولود بچوں کو گود دینے کا سلسلہ بند کر دیا تھا کیوں کہ حکومت نے اس حوالے سے اپنے قوانین میں تبدیلی کر دی تھی۔ پولیس نے اس دعوے کو بھی مسترد کیا ہے کہ مقامی دفتر بچوں کو فروخت کرنے کی بجائے گود دینے کی کارروائی میں ملوث تھا۔

مانڈل کا کہنا تھا، ’’بچہ گود لینے کے لیے بھی چائلڈ ویلفئر کمیٹی کو درخواست دینا پڑتی ہے۔ ایک قانونی عمل ہے۔ اس طرح کا کچھ بھی نہیں ہوا۔‘‘

ا ا / ش ح ( ڈی پی اے، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں