مدر ٹریسا کی 106ویں سالگرہ
26 اگست 2016موجودہ یورپی ملک مقدونیہ کے شہر اسکوپیئے میں ایک البانوی تاجر گھرانے میں پیدا ہونے والی ٹریسا سخت کیتھولک عقیدے کے تحت پروان چڑھیں۔ سترہ سال کی عمر میں والدین کے گھر کو چھوڑ کر آئر لینڈ کے شہر میں قائم نوجوان لڑکیوں کے لئے مختص ’’آرڈر آف ورجن‘‘ مشن میں شامل ہو گئیں۔ دسمبر سن 1928میں وہ بھارت پہنچ کر دارجیلنگ میں قیام پذیر ہوئیں۔ وہاں پر انہوں نے ’’لوریٹو کانوینٹ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ مدر ٹریسا کا کہنا تھا، ’’خدا ہم سے بہت پیار کرتا ہے، وہ انسانوں کی نگرانی فطرت کی اشیاء یعنی پھول اور سبزہ گاہوں سے بھی زیادہ کرتا ہے۔‘‘ واضح رہے کہ مدر ٹریسا اگلے چند دنوں میں سینٹ کے درجے پر فائز کر دی جائیں گی۔
سن 1930میں انہوں نےکولکتہ کے ایک کیتھولک سکول میں بچیوں کو پڑھانا شروع کردیا۔ ستمبر 1946میں ان کو محسوس ہوا کہ خدا ان سے کہہ رہا ہے کہ وہ غریبوں اور ناداروں کی مدد کا مشن شروع کریں۔ سن 1848میں پوپ پائیس بارہ کی اجازت سے مشن یا اپنا آرڈر قائم کرنے کے عمل کو شروع کردیا۔ دو سال بعد کیتھولک عقیدے کے مرکز ویٹیکن نے مدر ٹریسا کے خیراتی مشن کو باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا۔
اس دور میں نوجوان سسٹر ٹریسا نے درجنوں لوگوں کو غربت کے ہاتھوں مرتے دیکھا۔ ایک مرتبہ انہوں نے ایک بے ہوش عورت کو دیکھا جس کا آدھا بدن چوہوں اور چیونٹیوں نے کھایا ہوا تھا۔ ایک قریبی ہسپتال نے اس عورت کا علاج کرنے سے انکار کردیا تھا۔ اس کی موت کے بعد سسٹر ٹریسا نے عہد کیا کہ اس طرح اب کسی کو نہیں مرنا چاہیے۔
انہوں نے اس سوچ کے بعد ایک گھر میں نگہداشت کا مرکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ شہر کی انتظامیہ نے کولکتہ کے کالی گھاٹ ضلع کے قریب کالی کے مندر کے پہلو میں واقع ایک خالی عمارت کو استعمال کرنے کی اجازت سسٹر ٹریسا کو دے دی۔ اسی گھر میں اگلے برسوں میں تقریباً چالیس ہزار نادار و غریب لوگ اپنی زندگی کے آخری ایام گزارنے کے قابل ہو سکے۔ مدر ٹریسا کا موت کے حوالے سے کہنا تھا، ’’انسانی ذات کی بہترین صورت موت ہے، سکون میں موت کو پانے کا مطلب بہتر انجام ہے۔‘‘
سن 1952میں شروع ہونے والے عافیت خانے کو دنیا بھر سے عطیات ملنے کا سلسلہ زور پکڑتا گیا۔ اگلے برسوں میں غریبوں کے لیے ایسے گھروں کی مزید ضرورت پیدا ہوئی۔ اس دوران سن 1979 میں ان کو امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ بے شمارعطیات اور موصولہ خیراتی رقوم کے استعمال میں ان پر تنقید کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ ان کے ادارے میں درد میں مبتلا افراد کو ادویات نہیں دی جاتی اور اسی باعث امریکی ادیب کرسٹوفر ہیچنز نے مدر ٹریسا کو ’’دوزخ کا فرشتہ‘‘ قرار دیا تھا۔ لیکن اپنی زندگی میں مدر ٹریسیا نے ایسی تنقید کی قطعاً پرواہ نہیں کی تھی۔