1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی ریاست مردوں کی نس بندی کیوں کرنا چاہتی ہے؟

23 فروری 2020

بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کی حکومت نے شدید تنقید کے بعد مردوں کی نس بندی سے متعلق اپنا ایک نوٹیفیکیشن واپس لے لیا ہے۔ ریاست کو نس بندی سے متعلق طے کردہ اہداف حاصل کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/STR

وسطی بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کی حکومت نے گیارہ فروری کو ایک نوٹیفیکشین جاری کیا جس میں حکام کو کہا گیا تھا کہ وہ صحت سے متعلق ادارے کے عملے میں ایسے افراد کی نشاندہی کریں جنہوں نے کسی بھی شخص کی نس بندی نہیں کی۔ حکام کو یہ ہدایت بھی کی گئی کہ وہ عملے کے ایسے افراد سے کہیں کہ وہ بہرصورت اکتیس مارچ تک کم از کم ایک مرد کو نس بندی کے لیے قائل کریں بصورت دیگر ان کی تنخواہ روک دی جائے گی یا انہیں جبری طور پر ریٹائر کر دیا جائے گا۔

مدھیہ پردیش کے نیشنل ہیلتھ مشن کے مطابق ریاست میں رواں مالی سال کے دوسری چوتھائی میں 3757 افراد کی نس بندی کی گئی تھی۔

ریاست میں کانگریس کی حکومت ہے جب کہ بھارتیہ جنتا پارٹی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت ہے۔ بی جے پی کے ترجمان نے حکومتی نوٹس کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ عملے کے ارکان کو ہراساں کرنا ناقابل قبول ہے۔

شدید تنقید کے بعد ریاست کی وزیر صحت تلسی سلاوت نے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو بتایا کہ نوٹیفیکیشن میں مناسب الفاظ نہیں چنے گئے تھے اس لیے اسے منسوخ کر کے متعلقہ ڈائریکٹر کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''کسی کی جبری نس بندی نہیں کی جائے گی، کسی کو نوکری سے نہیں نکالا جائے گا، ہم صرف آگاہی مہم شروع کر رہے ہیں۔‘‘

جبری نس بندی اور ماضی کی تلخ یادیں

سن 1970 کی دہائی میں بھارت میں ایمرجنسی نافذ تھی۔ اس وقت اندرا گاندھی بھارتی وزیر اعظم اور ان کے بیٹے سنجے گاندھی ان کے مشیر تھے۔ سنجے گاندھی نے ملک بھر میں نس بندی مہم شروع کر دی تھی اور ایک برس میں 62 لاکھ افراد کی نس بندی کی گئی تھی۔ نس بندی کے ناقص طریقہ آپریشن کے باعث کئی مرد ہلاک ہو گئے تھے۔

اس وقت مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ کمل ناتھ ہیں جو سنجے گاندھی کے قریبی ساتھی بھی تھے۔ بی جے پی نے اسی وجہ سے حکومتی نوٹیفیکیشن کو سن ستر کے جبری نس بندی پروگرام جیسا قرار دیا۔

بھارتی مردوں کی اکثریت نس بندی کے خلاف

بھارتی حکام کے مطابق ملک کے دیہی علاقوں میں بسنے والے مردوں کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ نس بندی کرانے سے ان کی 'مردانگی‘ متاثر ہو گی۔ اسی لیے خاندانی منصوبہ بندی اور نس بندی کا تمام بوجھ خواتین پر پڑ جاتا ہے۔ حالانکہ خواتین میں نس بندی کا عمل مردوں کی نسبت زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے۔

زیادہ تر بھارتی مرد سمجھتے ہیں کہ نس بندی عورت کی ذمہ داری ہےتصویر: Reuters/M. Mukherjee

آبادی کنٹرول کرنے کے لیے بھارت کی ریاستی حکومتیں نس بندی کیمپ تواتر سے لگاتی ہیں جہاں نس بندی کرانے والوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے حکومت کئی طرح کی سہولیات فراہم کرتی ہے۔ ایسی سہولیات حاصل کرنے کے لیے اکثر اوقات خاوند اپنی بیویوں کو نس بندی کرانے پر مجبور بھی کرتے ہیں۔ بھارتی نیشنل فیملی ہیلتھ کے ایک سروے کے مطابق ملک میں ہر آٹھ میں سے تین مرد یہ سمجھتے ہیں کہ نس بندی اور خاندانی منصوبہ بندی عورت کی ذمہ داری ہے۔

آبادی کے لحاظ سے بھارت دنیا میں دوسرا بڑا ملک ہے اور آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث سن 2030 تک وہ چین کو پیچھے چھوڑ کر سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔

ش ح / ا ب ا (انکیتا مکھوپادھیا)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں