1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مذاکرات شروع ہونے کا ایرانی دعویٰ: یورپی یونین کی تردید

19 جنوری 2012

متنازعہ جوہری پروگرام کے حوالے سے ایران کا دعویٰ ہے کہ بات چیت کے لیے مقام اور تاریخ کے تعین کا عمل جاری ہے۔ یورپی یونین اور دیگر نمائندہ قوتوں کی جانب سے اس ایرانی دعویے کی تردید کر دی گئی ہے۔

---
تصویر: DW

بدھ کے روز تہران کی جانب سے کہا گیا ہے کہ جوہری پروگرام کی مناسبت سے مغربی طاقتوں کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے لیے مقام اور تاریخ کے تعین کو طے کرنے کا عمل جاری ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ مذاکراتی عمل جلد شروع کیا جا رہا ہے۔ اس بیان کی یورپی یونین کی جانب سے تردید سامنے آ گئی ہے۔ برطانیہ کے وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے تہران کے بیان پر کہا ہے کہ مذاکرات شروع کرنے سے قبل ایران حکومت کو وہ سنجیدگی ظاہر کرنا ضروری ہے جو اس اہم معاملے کے لیے ضروری ہے۔

ترکی کے دورے پر گئے ہوئے ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالحی کا کہنا ہے کہ بات چیت کے جلد شروع ہونے کا امکان ہے۔ مذاکرات کے مقام کے حوالے سے ایرانی وزیر خارجہ نے ترک شہر استنبول کا اشارہ دیا ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف کیتھرین ایشٹن کا کہنا ہے کہ چھ ملکوں کے نمائندوں کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے کے حوالے سے کوئی صلاح مشورہ نہیں ہو رہا۔

 ایرانی سیاستدانوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تیل کی بڑھتی قیمتوں کے تناظر میں امریکی صدر باراک اوباما کی جانب سے ایران کو لکھے گئے خط میں مذاکرات شروع کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ یہ خط ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو ارسال کیا گیا ہے۔ خط کے مند رجات کے بارے ایرانی رکن پارلیمنٹ علی مطاہری نے نیم سرکاری نیوز ایجنسی فارس کو بتایا۔ تاہم اس خط کی امریکی ذرائع سے تصدیق ہونا ابھی باقی ہے۔

دسمبر سن 2010: جنیوا منعقدہ مذاکرات میں ایرانی مذاکرات کار سعید جلیلی اور کیتھرین ایشٹنتصویر: AP

 یورپی یونین کے رکن ملکوں کے بعض سفارتکاروں کا ظاہر کرنا ہے کہ یونین کی رکن ریاستیں اس بات پر متفق دکھائی دیتی ہیں کہ تیل کی سپلائی پر پابندی کے علاوہ ایرانی سینٹرل بینک کے اثاثوں کو کلی طور پر منجمد کردیا جائے۔ اس مناسبت سے مرحلہ وار پابندیاں عائد کرنے کی منظوری یورپی یونین کے وزرائے خارجہ 23 جنوری کے اجلاس میں دے سکتے ہیں۔ ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان متنازعہ جوہری پورگرام پر بات چیت کا عمل معطل ہوئے تقریباً ایک سال ہو گیا ہے۔ پابندیوں کی وجہ سے خلیج فارس میں ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان کسی مسلح جھڑپ کے آثار بھی بڑھ گئے ہیں۔

روس نے ایران پر کسی حملے کو انتہائی تباہ کن قرار دیا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے مطابق ایسی کوئی کارروائی مسلمان ملکوں میں پہلے سے پائی جانے والی شیعہ سنی نفرت میں شدت پیدا کر دے گی۔ روسی وزیر خارجہ کے خیال میں ایسا کوئی حملہ انتہائی سنگین نتائج اور ناقابل تلافی نقصان کا باعث ہوسکتا ہے۔ لاوروف کے مطابق ایران پر حملہ ایکشن اور ری ایکشن کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردے گا۔ چین بھی روسی خدشات کا حامی ہے۔  ادھر اسرائیل کے وزیر دفاع ایہود باراک نے بدھ کے روز کہا ہے کہ ایران پر حملہ بہت دور کی بات ہے۔ باراک کے مطابق اسرائیل نے اس بابت ابھی کوئی فیصلہ قدم نہیں اٹھایا ہے۔

رپورٹ:  عابد حسین

ادارت:  ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں