انتہاپسند جماعتیں اور افراد اپنی سچائی پر یقین رکھتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ سمجھ کر ان سے دور رہتے ہیں۔ انتہا پسندی کے جذبات ہمیں قدیم عہد میں بھی دکھائی دیتے ہیں۔ جب لوگ دیوی دیوتاؤں پر ایمان رکھتے ہوئے ان سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتے تھے۔ انہیں خوش رکھنے کے لیے نذرانے دیتے تھے اور ان کی بے حُرمتی برداشت نہیں کرتے تھے۔
یہودی مذہب میں ہم انتہا پسندی کو اس کے مختلف فرقوں میں دیکھتے ہیں۔ ایک فرقہ ایسا تھا جو یہودی معاشرے سے علیحدہ ہو کر بحرِ مُردار کے ساحل پر آباد ہو گیا تھا تاکہ علیحدگی میں رہتے ہوئے وہ اپنی پاکیزگی کو برقرار رکھ سکے۔ اس مقام سے Dead Sea Scroll ملے ہیں جنہیں غاروں میں چھپا دیا گیا تھا۔ ان پر فرقے کے مذہبی اعتقادات درج ہیں۔
جب یوروشِلم پر رومیوں کا قبضہ تھا تو ان کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے یہودیوں کا ایک فرقہ اُبھرا جو Zealot کہلاتا تھا اور مذہبی طور پر انتہا پسند تھا۔ مذہبی انتہا پسندی کا یہ سلسلہ عہد وسطیٰ کے یورپ میں آیا۔ چرچ کی جانب سے یہ ہدایت دی گئی کہ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے کوئی تعلق نہ رکھا جائے اور اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے دوسرے مذاہب سے رواداری کا رویہ اختیار نہ کریں کیونکہ خطرہ یہ تھا کہ اگر دوسرے مذاہب کے لوگوں سے میل جول ہو گا تو ان کے عقائد میں خلل آ سکتا ہے۔ اس لیے اعتقاد کی حفاظت کے لیے انتہا پسندی کا ہونا ضروری تھا۔
جب عیسائیت میں Reformation کی تحریک آئی تو اس نے عیسائیت کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیا۔ یعنی پروٹسٹنٹ اور کیتھولِک۔ کیتھولِک فرقے نے خاص طور سے خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہوئے اپنے پیروکاروں پر پابندیاں لگائیں یعنی وہ چرچ کی جانب سے اعلان کردہ ممنوعہ کتابیں نہ پڑھیں دوسرے فرقوں سے رابطہ نہ رکھیں اور اپنے عقیدے کو انتہا پسندی کے ساتھ مضبوط رکھیں۔ دوسری جانب پروٹسٹنٹ فرقے نے بھی انتہاپسندی اختیار کرتے ہوئے اپنے ماننے والوں پر سختیاں کیں۔ مثلاً Calvin فرقے کو لوگ مذہبی معاملے میں بے حد شدّت پسند سمجھتے تھے۔
اس مذہبی انتہاپسندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ 1618 سے 1648 تک جرمنی میں تیس سالہ مذہبی جنگیں ہوئیں۔ جس نے جرمنی کے معاشرے کو نہ صرف ان دو فرقوں میں تقسیم کر دیا بلکہ معاشی اور سیاسی طور پر پورا ملک تباہ و برباد ہو گیا۔
اس موضوع پر Zachary R. Gold Smith نے اپنی کتاب Fanaticisms: A political Philosophical History میں مذہبی انتہا پسندی کا جائزہ لیتے ہوئے اُن مفکرین اور دانشوروں کے حوالے دیے ہیں جنہوں نے اس کے مضر اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔ روشن خیالی کے دور کے اہم مفکر Voltaire کا حوالہ دیا ہے۔ جس نے مذہبی انتہا پسندی کو عقل اور دلیل کے خلاف بیان کیا ہے۔ اس کے مطابق یہ وہ جذبہ ہے جو لوگوں کو اندھیرے میں رکھتا ہے اور وہ روشنی کے نور سے بے خبر رہتے ہیں۔ جرمن فلسفی Kant نے اس تباہ کن جذبہ کے بارے میں لِکھا ہے۔Edmund Burk نے فرانسیسی انقلاب پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ انقلابیوں کی سیاسی انتہا پسندی نے فرانس کے صدیوں پرانے نظام اور روایات کو ختم کر کے اس کو پسماندہ کر دیا ہے۔ "Burk” کی وفات 1791 میں ہوئی اس لیے اس نے انقلاب کے دہشت گرد زمانے کو نہیں دیکھا۔ 1793 تک کا وہ زمانہ تھا جب ذرا سے شک پر انقلاب دشمن افراد کے سر کاٹ دیے گئے۔ فرانس کے ہر شہر کے چوک پر گلوٹِن نصب تھا جہاں انقلاب دشمن لوگوں کے سر کاٹے جاتے تھے۔ اس سیاسی انتہا پسندی کا نتیجہ یہ ہوا کہ انقلاب مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہو گیا۔
مصنّف نے روسی ناول نگار Dostoevsky (D. 1881) کے ناول "Demons” میں ایک انقلابی نوجوان کا ذکر کیا ہے۔ جو مذہبی انتہا پسند تھا۔ انقلاب کی خاطر وہ توڑ پھوڑ، تباہی و بربادی اور آگ لگا کر اپنے مقاصد کو حاصل کرنا چاہتا ہے۔ وہ ذہنی طور پر اس قدر محصور ہے کہ اُسے اپنے اردگرد کے ماحول سے بھی بے خبری ہے۔ وہ انقلاب کی خاطر اپنی جان دینے کو تیار ہے۔ جب اس نے یہ ناول لکھا اس وقت یورپ میں انقلابی تحریکیں جاری تھیں اور تبدیلی کی خاطر نوجوان جانیں دے رہے تھے۔
مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی نے یورپ کے معاشرے کو یہ سبق دیا کہ انتہا پسندی کے ان جذبات کی وجہ سے معاشرہ ترقی نہیں کر سکے گا۔ اس لیے دانشوروں اور مفکرین نے اس پر سخت تنقید کی۔ انگریز فلسفی John Locke (D. 1704) نے رواداری (Toleration) کے نام سے ایک مضمون لکھا جس میں وضاحت کی کہ معاشرے انتہا پسندی سے نہیں بلکہ رواداری کے جذبے سے ترقی کرتے ہیں۔ Scotland کے فلسفی اور مورخ David Hume جو (1776) میں وفات پا گیا تھا نے انتہا پسندی کو معاشرے کے لیے مہک قرار دیا۔ دانشوروں کے ان خیالات اور افکار، تعلیمی شرح میں اضافہ، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی، معاشی خوشحالی اور سیاسی استحکام نے انتہا پسندی کے جذبات کو دبا دیا۔ لیکن ان کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو سکا اور آج بھی یورپ اور ایشیا کے ممالک میں مذہبی اور سیاسی تنگ نظری کو سیاست دان اپنی مقبولیت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اس پر غور نہیں کیا جاتا کہ انتہا پسندی معاشرے کے اتحاد کو ختم کرتی ہے اور لوگوں میں نفرت اور تعصّبات کو پیدا کرتی ہے جو مسلسل فسادات کا باعث ہوتے ہیں۔
پاکستان کو تاریخ سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ انتہا پسندی اشتراک کے جذبات کو ختم کرتی ہے اور معاشرے کو تنہائی کا شکار کر دیتی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔