پوٹن، مودی، ایردوآن اور نیتن یاہو میں قدر مشترک کیا ہے؟
3 فروری 2021
کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ مختلف ممالک کے عوامیت پسند قوم پرست رہنماؤں میں ممکنہ قدر مشترک کیا ہے؟ جرمنی کے ایک معروف ثقافتی محقق کے مطابق ایسے اکثر عالمی رہنماؤں کی سیاست کا ایک مذہبی پہلو بھی ہوتا ہے۔
اشتہار
ثقافتی موضوعات پر اپنی تحقیق کے لیے معروف اور قدیم مصری علوم کے 82 سالہ جرمن ماہر ژان اسمان کے مطابق عوامیت پسند قوم پسندانہ رجحانات رکھنے والی حکومتوں کے سربراہان اکثر اپنی سیاست کو سماجی اکثریت کی روایتی مذہبی سوچ سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی بات ان کی سیاسی مقبولت کی ایک بڑی وجہ بھی بن جاتی ہے۔
ژان اسمان نے جرمن شہر میونسٹر کی یونیورسٹی میں مذہب اور سیاست کے موضوع پر اپنے ایک خصوصی لیکچر میں منگل دو فروری کی شام کہا کہ مذہب اور سیاست کو آپس میں ملا دینے کا یہی رویہ عوامیت پسند حکومتوں کو خود پسندی اور جمہوریت مخالف رویوں کی طرف لے جاتا ہے۔
'موجودہ دور کی متعدد مثالیں‘
اس جرمن محقق کے مطابق، ''روسی صدر پوٹن ہوں، ترک صدر ایردوآن، بھارتی وزیر اعظم مودی، اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو، پولینڈ کے دودا، ہنگری کے اوربان یا پھر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، یہ تمام سیاست دان اس امر کی بہترین مثالیں ہیں کہ حکمران اپنی سوچوں میں جمہوری رویوں کے مخالف اور خود پسند کیسے بن جاتے ہیں۔‘‘
اپنے اس آن لائن لیکچر میں ژان اسمان نے کہا کہ قوم پسندی بھی مخصوص حالات میں نا صرف مذہب جتنی اہم ہو جاتی ہے بلکہ وہ اپنی اساس میں مذہبی بھی ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم پسند سیاستدان روایتی مذہبی سوچ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
علوم مصر کے اس جرمن محقق کے بقول، ''قوم پسندانہ نظریات میں تقدیس کی حد تک اہمیت قوم کو دی جاتی ہے۔ قوم پسندی کوئی ایسا 'متبادل مذہب‘ نہیں ہوتی جسے مذہب کی جگہ پر رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، جیسا کہ کمیونزم میں کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس قوم پسندی مذہب کو اپنا اتحادی بناتے ہوئے اسے اپنے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتی ہے۔‘‘
وسطی یورپ کا ایک ایسا علاقائی تنازعہ، جو دنیا میں ایک بدترین جنگ کی صورتحال اختیار کر گیا تھا۔ تئیس مئی سن 1618 کو مذہب کی بنیاد پر شروع ہونے والی یہ لڑائی یورپ میں برتری حاصل کرنے کی ایک رزمیہ جنگ بن گئی۔
تصویر: Imago/United Archives
لوٹ مار اور تشدد کا بے جا استعمال
آخری مراحل میں یہ جنگ وسطی یورپ کے ان علاقوں تک محدود ہو گئی جہاں کھانے یا لوٹنے کو کچھ باقی بچا تھا۔ کسانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا کہ وہ اپنے اناج کے خفیہ ذخائر کے بارے میں بتائیں۔ سویڈن کے زر پرست افراد نے عام شہریوں کو تشدد اور دہشت کا نشانہ بنانے کے کئی لرزہ خیز طریقے اختیار کیے۔ ان میں لوگوں کو زبردستی سویڈش ڈرنک‘ پلانا بھی شامل تھا، جس کے اجزا میں پیشاب، پاخانہ اور آلودہ پانی تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
کیتھولک اور پروٹسٹنٹ آمنے سامنے
ابتدا میں یہ لڑائی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ریاستوں کے مابین تھی، جو یورپ کے طاقتور ممالک تک پھیل گئی۔ مقدس رومی سلطنت بھی اس میں شامل ہو گئی، جس کا مقابلہ پروٹسٹنٹ مسیحیوں سے تھا۔ سن 1630 میں سویڈش شاہ گستاف الثانی اڈولف بھی اس جنگ کے فریق بن گئے۔ وہ جرمن پروٹسٹنٹ کمیونٹی کو کیتھولک مسیحیوں کے حملوں سے بچانا اور یورپ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتے تھے۔ انہوں نے بطور کمانڈر کئی معرکوں میں شرکت کی۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
شاہ کی موت
اس جنگ کی سب سے بڑی لڑائی سولہ نومبر سن 1632 کو لؤٹزن کے مقام پر ہوئی۔ اس معرکے میں اطراف کو شدید جانی و مالی نقصان ہوا لیکن فاتح کوئی بھی نہ بن سکا۔ اس جنگ میں سویڈش بادشاہ کی پروٹسٹنٹ افواج کا سامنا البرشت فان والن شٹائن کی قیادت میں کیتھولک رومن افواج کے ساتھ تھا۔ اس لڑائی میں گستاف الثانی اڈولف مارے گئے۔ یوں کیتھولک افواج نے جیت کا اعلان کر دیا لیکن ان کا یہ اعلان صرف پراپیگنڈا پر ہی مبنی تھا۔
تصویر: picture-alliance/akg-images
جنگ سے فائدہ حاصل کرنے والے
اس یورپی جنگ کی وجہ سے کئی فوجی کمانڈروں کو فائدہ بھی ہوا۔ ان میں ایک نام جنرل البرشت فان والن شٹائن کا بھی ہے۔ اس جنگ کے اہم کمانڈر والن شٹائن نے ایک نظام تشکیل دیا، جس کے تحت کسانوں، تاجروں اور عام شہریوں سے زبردستی اشیائے خوردونوش جمع کی جاتی تھی۔ عام لوگوں کو فوج میں بھرتی کیا جاتا، حتیٰ کہ ان کی تنخواہیں بھی عام لوگ ہی ادا کرتے تھے۔ والن شٹائن کا موٹو تھا، ’’جنگ خود ہی لوگوں کو خوراک دے گی‘‘۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
سر عام پھانسیاں
اس تیس سالہ جنگ کے دوران تشدد اور لوگوں کو ہلاک کرنا معمول کی بات رہی۔ مشہور مصور ژاک کالوت نے اس جنگ کی تباہ کاریوں کو اپنی متعدد پینٹگز میں عکس بند کیا۔ انہوں نے عوام کو مظلوم اور ظالم دونوں کے ہی روپ میں دکھایا۔ ان کی ایک مشہور پینٹنگ ’دی ہینگنگ‘ ہے، جو سن سولہ سو بتیس اور تینتیس کے دوران بنائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
جنگ بندی کا تاریخی معاہدہ
تب شاید ہی کسی کو یہ یقین تھا کہ یہ جنگ کبھی ختم بھی ہو سکتی ہے تاہم آخر کار طویل مشاورتی عمل کے نتیجے میں قیام امن ممکن ہو ہی گیا۔ پانچ سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد کیتھولک اور پروٹسٹنٹ حریفوں نے پندرہ مئی سن سولہ سو اڑتالیس کو موجودہ جرمن شہر میونسٹر میں جنگ بندی ڈیل کو حتمی شکل دی۔ اس جنگ نے یورپ کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔
ژان اسمان نے کہا کہ موجودہ دور میں اس رجحان کی مختلف بڑی مثالوں سے ہٹ کر جرمنی میں اس کی بہت بڑی مثال گزشتہ صدی میں نازی دور میں دیکھنے میں آئی تھی، ''تب نیشنل سوشلسٹوں (نازیوں) نے مسیحی اکثریت جرمن عوام کے ساتھ بھی یہی کیا تھا۔‘‘
'مذہب سے متعلق غلط فہمی‘
ژان اسمان نے کہا کہ یہ بھی ایک غلط فہمی ہے کہ موجودہ دور میں مذہب بہت پیچھے رہ گیا ہے۔
ان کے مطابق، ''مختلف انسانی معاشروں میں سیکولر رجحانات کی مقبولیت کا یہ مطلب نہیں کہ جسے ماضی میں مقدس سمجھا جاتا تھا، وہ ناپید ہو گیا ہے۔ مذہب اب بھی موجود ہے اور وہ کہیں پیش منظر میں ہے، کہیں منظر سے غائب ہو چکا ہے تو کہیں اسے سیاسی حوالے سے استعمال کیا جا رہا ہے۔‘‘
ژان اسمان ماضی میں جرمن شہر ہائیڈل برگ کی یونیورسٹی میں 27 سال تک علوم مصر کے پروفیسر کے طور پر پڑھاتے رہے ہیں۔ 2003ء میں اپنی ریٹائرمنٹ سے لے کر اب تک وہ کونسٹانس یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر کے طور پر مصروف عمل ہیں۔
2018ء میں انہیں اور ان کی اہلیہ الائیڈا کو مشترکہ طور پر جرمن بک انڈسٹری کا معروف امن انعام بھی دیا گیا تھا۔
م م / ک م (کے این اے)
کس مذہب کے کتنے ماننے والے
دنیا بھر میں ہر دس میں سے آٹھ افراد کسی نہ کسی مذہبی برادری کا حصہ ہیں۔ امریکی تحقیقاتی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے سات ارب سے زائد افراد میں کس مذہب کے کتنے پیرو کار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta
مسیحی، آبادی کے تناسب سے پہلے نمبر پر
دنیا بھر میں سب سے زیادہ آبادی مسیحیت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔ عالمی آبادی میں اِن کی حصہ داری قریب 31.5 فیصد بنتی ہے جبکہ ان کی کل تعداد تقریباﹰ 2.2 ارب ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
مسلمان
اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے، جس کے ماننے والوں کی تعداد 1.6 ارب مانی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کی عالمی سطح پر شرح 23.2 فیصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سیکولر یا ملحد
عالمی آبادی کا تقریباﹰ سولہ فیصد ایسے افراد پر مشتمل ہے جو کسی مذہب میں یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
ہندوازم
تقریباﹰ ایک ارب آبادی کے ساتھ ہندو دنیا میں تیسری بڑی مذہبی برادری ہیں۔ یہ کُل آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta
چینی روایتی مذہب
چین کے روایتی مذہب کو ماننے والوں کی کُل تعداد 39.4 کروڑ ہے اور دنیا کی آبادی میں اِن کی حصہ داری 5.5 فیصد ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
بدھ مت
دنیا بھر میں 37.6 کروڑ افراد بدھ مت کے پیرو کار ہیں۔ جن میں سے نصف چین میں آباد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS
نسلی مذہبی گروپ
اس گروپ میں مذہبی برادریوں کو نسل کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ اس گروپ میں شامل افراد کی کُل تعداد قریب 40 کروڑ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Heunis
سکھ مذہب
اپنی رنگا رنگ ثقافت کے لیے دنیا بھر میں مشہور سکھوں کی کُل آبادی 2.3 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: NARINDER NANU/AFP/Getty Images
یہودی مذہب
یہودیوں کی تعداد عالمی آبادی میں 0.2 فیصد ہے جبکہ اس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد 1.4 کروڑ کے قریب ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Rothermel
جین مت
جین مذہب کے پیروکار بنیادی طور پر بھارت میں آباد ہیں ۔ جین مت کے ماننے والوں کی تعداد 42 لاکھ کے آس پاس ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/N. Ut
شنتو عقیدہ
اس مذہب کے پیروکار زیادہ تر جاپان میں پائے جاتے ہیں اور اس عقیدے سے منسلک رسوم اُس خطے میں صدیوں سے رائج ہیں تاہم اس کے پیرو کاروں کی تعداد صرف تین ملین ہے۔