1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مذہب اور عبادت عوام کا کام ہے، ریاست کا نہیں

31 اگست 2020

دنیا میں دو طرح کے ممالک ہیں۔ ایک وہ، جو سیکولرازم کا اصول اپناتے ہوئے ریاستی سطح پر خود کو کسی بھی مذہب سے دور اور عوام سے قریب رکھتے ہیں۔ دوسرے وہ ممالک جنہیں عملاﹰ مذہبی ریاستوں کے طور پر چلایا جاتا ہے۔

Ismat Jabeen Bloggerin
تصویر: Privat

پاکستان آئینی طور پر نہ صرف ایک مذہبی بلکہ اسلامی ریاست ہے۔ حال ہی میں پاکستان میں چند ایسے واقعات رونما ہوئے، جو اپنی نوعیت میں بہت منفرد تو نہیں تھے مگر ایک مذہبی ریاست کے طور پر ملک کو درپیش اس طرح کے مسائل کی نشاندہی بہرحال کرتے ہیں، جن سے معاشرے میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اور مختلف طرز فکر کے حامل افراد کے لیے جان و مال کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے۔

اس حوالے سے چند ایسے واقعات کا ذکر بھی ناگزیر ہے، جو اسی ماہ پیش آئے۔ پہلے صوبہ خیبر پختونخوا کی ایک عدالت میں جج کے سامنے توہین مذہب کے ایک مقدمے کے ملزم کو ایک نوجوان نے گولی مار کر قتل کر دیا۔

دوسرے واقعے میں صوبہ پنجاب میں ایک بینک کے دو سکیورٹی گارڈز کے مابین فرقہ وارانہ بحث کے دوران ایک گارڈ نے دوسرے کو گولی مار دی۔

ایسے واقعات سے ایک پیشہ وارانہ صحافی اور نجی حیثیت میں انسانی حقوق کی ایک کارکن کے طور پر میرے لیے کچھ ایسے سوال بھی کھڑے ہو جاتے ہیں، جن کا سامنا میرے جیسے لاکھوں شہریوں کو بھی ہوتا ہے، لیکن جن کے جوابات ریاست کی قانونی جانبداری اور ایک خاص طرح کی مذہبی طرف داری کے باعث متنازعہ ہوتے ہیں اور اسی لیے یہ جوابات تسلی بخش نہیں ہوتے۔

پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ریاست کا آئین، قانون اور پالیسی سازی کی حد کا واضح جھکاؤ ایک خاص مذہب کی طرف ہے۔ اس طرح ایک کثیرالمذہبی، کثیرالمسلکی اور لسانی اور سماجی تنوع والے اس ملک میں انصاف کے اصول اور تقاضے دب کر رہ جاتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اپنی آبادی میں وسیع تر تنوع والے ملک پاکستان میں بہت سے شہری غیر محفوظ اور ریاست کی طرف سے صرف ان کے اپنے حال پر ہی چھوڑ دیے جاتے ہیں۔

جب ریاست کسی ایک خاص مذہب کو ترجیح دے گی، تو پھر اس مذہب کا کوئی بھی شدت پسند اسی قانونی ترجیحی حیثیت کا سہارا لے کر اپنے مخالفین کو کھلے عام اور عدالتوں تک میں قتل کر دینے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ اس کے بعد ایسے کسی قاتل کے مذہبی حمایتی اس کو پھولوں کے ہار بھی پہنائیں گے اور نہ صرف اس کا ماتھا بھی چومیں گے بلکہ اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہونے کے باوجود اس کے ساتھ سیلفیاں بھی بنائیں گے۔

یہ بھی پڑھیے:

عبادت گاہوں کی آزادی بھی کتنی بڑی نعمت ہے

تمام سرکاری عمارات میں صلیبیں لگائی جائیں گی، صوبائی حکومت

پاکستان میں ایسا صرف ہو ہی نہیں سکتا بلکہ ہوتا رہتا ہے اور حال ہی میں خیبر پختونخوا میں ہوا بھی ہے۔ ایک دوسری سوچ یہ بھی ہے کہ کمرہ عدالت میں ہونے والے قتل میں تو ایک مذہب کے ماننے والے نے کسی دوسرے عقیدے کے پیروکار کو مذہبی نفرت کے نتیجے میں قتل کیا تھا، لیکن دوسرے واقعے میں انسانی جان کا ضیاع کیوں ہوا؟ جن دو گارڈز کے مابین مذہبی بحث کے نتیجے میں ایک نے دوسرے کو قتل کیا، ان دونوں کا تو مذہب بھی ایک ہی تھا، وہی مذہب جس کی طرف داری خود ریاست بھی اسے افضل جان کر کرتی ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن مذاہب کے پیروکاروں کی ریاست عملاﹰ تائید و حمایت نہیں کرتی، وہ تو خود کو 'ریاستی یتیم‘ سمجھیں گے ہی، لیکن ریاست کے پسندیدہ مذہب کے ماننے والے ریاستی سرپرستی کے باوجود غیر محفوظ کیوں ہیں؟

پاکستان میں بات چاہے عوام کی طرف سے ان کی سماجی ذمہ داریوں کی انجام دہی کی ہو، ریاست کی طرف سے اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے کی یا پھر سیاسی عمل میں قانون سازی کے مراحل کی تکمیل کی، دیکھا یہ جاتا ہے کہ فیصلہ کن بات انسانی حقوق نہیں ہیں بلکہ وہ مذہبی عقیدے جو پورے ریاستی نظام کو چلا رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ پاکستانی عوام پچھلی چند دہائیوں میں ہزاروں شہریوں کے مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل اور خونریز دہشت گردی کی صورت میں دیکھ بھی چکے ہیں۔

پاکستان اور پاکستان جیسے سبھی ممالک میں میرا اپنا اور دیگر تمام شہریوں کا یہ حق بھی ہے اور فرض بھی کہ ہم سب چاہے اپنے اپنے مذہبی عقائد کے حامل اور ان پر عمل  پیرا ہوں یا نہ ہوں، مگر دونوں ہی صورتوں میں ان جملہ معاملات کو اپنا نجی معاملہ ہی بنائے رکھیں۔

کسی بھی سیکولر ملک میں کسی بھی مذہب پر کوئی پابندی نہیں ہوتی۔ عام شہریوں کو اپنی زندگیوں کو اپنے اپنے عقائد کے مطابق ڈھالنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔ انہیں اپنے خلاف کسی بھی جبری عمل سے نمٹنے کی آئینی ضمانت اور قانونی حفاظت دونوں دستیاب ہوتی ہیں۔ اس کے برعکس کسی بھی مذہبی ریاست میں حالات اس لیے مختلف ہوتے ہیں کہ وہاں آئینی ضمانتوں اور قانونی حفاظتوں کے ہوتے ہوئے بھی شہریوں کے جان و مال کے لیے خطرات باقی رہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔

بنیادی اصول تو یہ ہے کہ سبھی مذاہب کا احترام ہر کسی کے لیے لازم ہے۔ کسی بھی انسان دوست اور قانون پسند ریاست کو اپنے تمام شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کرنا چاہیے، چاہیے ان کا تعلق کسی بھی عقیدے یا فرقے سے ہو۔ ایسا کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ کوئی بھی ریاست درحقیقت ریاست بنتی ہی اسی طرح ہے۔

خدا سے لو لگانا اور عبادت کرنا انسانوں کا کام ہوتا ہے، کسی بھی ریاست کا نہیں۔ ریاست کو تو بس ایسے ماحول کو یقینی بنانا ہوتا ہے، جس میں ہر شہری بلا خوف و خطر اپنی مرضی کی پرامن زندگی گزار سکے اور اپنے عقید پر عمل بھی کر سکے۔ کوئی بھی کامیاب ریاست کسی خاص مذہب یا فرقے کی دانستہ ترویج نہیں کرتی، ریاست کے اہداف تو عوام کی بہبود اور اس کے باشندوں کی سلامتی اور آسودگی ہونی چاہییں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں