دنیا بھر میں مذہبی آزادی سے متعلقہ امور کے نگران کسی اہلکار کا کام بھلا کیا ہوتا ہے؟ مارکوس گرُوئبل کے لیے اس کام کا ایک سالہ میزانیہ واقعی آنکھیں کھول دینے والا ہے: دنیا بھر میں مذہبی تنازعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
اشتہار
آج کی دنیا میں مذہبی وجوہات کی بناء پر شروع ہونے والے تنازعات نہ صرف زیادہ تواتر سے پیدا ہونے لگے ہیں بلکہ اس پیش رفت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر مختلف مذاہب کے رہنماؤں کو، وہ جہاں کہیں بھی ہوں اور جس حیثیت میں بھی ہوں، امن کے لیے زیادہ مؤثر کاوشیں کرنا ہوں گی۔
مارکوس گرُوئبل کا تعلق چانسلر میرکل کی قیادت میں قائم جرمنی کی وسیع تر مخلوط حکومت میں شامل قدامت پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین یا سی ڈی یو سے ہے۔
وہ وفاقی جرمن پارلیمان کے رکن بھی ہیں۔ گرُوئبل کو انگیلا میرکل نے وفاقی حکومت کی طرف سے عالمی سطح پر مذہبی آزادیوں سے متعلقہ امور کا نگران اہلکار مقرر کیا تھا۔
اب انہیں اس عہدے پر اپنی ذمے داریاں انجام دیتے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’دنیا بھر میں مذہبی آزادیوں کی صورت حال کے حوالے سے جو پیش رفت دیکھنے میں آ رہی ہے، وہ اچھی نہیں ہے۔ عالمی سطح پر مذہبی اقلیتوں کو درپیش حالات مجموعی طور پر خراب ہی ہوئے ہیں۔‘‘
ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں مارکوس گرُوئبل نے کہا، ’’عالمی سطح پر مذہبی آزادیوں سے متعلقہ امور کا نگران اہلکار، اس عہدے کا نام بہت لمبا ہے۔ لیکن اس سے بھی مشکل اس عہدے پر کام کرنے والی شخصیت کی ذمے داریاں ہوتی ہیں، یعنی بین الاقوامی سطح پر کئی مختلف پہلوؤں سے مذہب اور مذہبی آزادیوں سے جڑے تنازعات اور پیچیدہ حالات پر قریب سے نظر رکھنا۔‘‘
انہوں نے کہا، ’’آج کی دنیا میں برداشت کم ہوتی جا رہی ہے۔ شدت پسند، خاص طور پر انتہا پسند مسلم گروپوں کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ چین میں ایغور مسلم اقلیت کو درپیش حالات زیادہ سے زیادہ تشویش کا سبب بن رہے ہیں۔ ہم نے واضح طور پر محسوس کیا ہے کہ مذہبی اقلیتوں کو درپیش حالات خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے لیے اپنے عقائد کے مطابق ان پر عمل کر سکنے کے امکانات محدود ہوتے جا رہے ہیں، اور یہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
کس مذہب کے کتنے ماننے والے
دنیا بھر میں ہر دس میں سے آٹھ افراد کسی نہ کسی مذہبی برادری کا حصہ ہیں۔ امریکی تحقیقاتی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کے سات ارب سے زائد افراد میں کس مذہب کے کتنے پیرو کار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta
مسیحی، آبادی کے تناسب سے پہلے نمبر پر
دنیا بھر میں سب سے زیادہ آبادی مسیحیت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔ عالمی آبادی میں اِن کی حصہ داری قریب 31.5 فیصد بنتی ہے جبکہ ان کی کل تعداد تقریباﹰ 2.2 ارب ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
مسلمان
اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب ہے، جس کے ماننے والوں کی تعداد 1.6 ارب مانی جاتی ہے۔ مسلمانوں کی آبادی کی عالمی سطح پر شرح 23.2 فیصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Al-Shaikh
سیکولر یا ملحد
عالمی آبادی کا تقریباﹰ سولہ فیصد ایسے افراد پر مشتمل ہے جو کسی مذہب میں یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
ہندوازم
تقریباﹰ ایک ارب آبادی کے ساتھ ہندو دنیا میں تیسری بڑی مذہبی برادری ہیں۔ یہ کُل آبادی کا پندرہ فیصد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Gupta
چینی روایتی مذہب
چین کے روایتی مذہب کو ماننے والوں کی کُل تعداد 39.4 کروڑ ہے اور دنیا کی آبادی میں اِن کی حصہ داری 5.5 فیصد ہے۔
تصویر: picture alliance/CPA Media
بدھ مت
دنیا بھر میں 37.6 کروڑ افراد بدھ مت کے پیرو کار ہیں۔ جن میں سے نصف چین میں آباد ہیں۔
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS
نسلی مذہبی گروپ
اس گروپ میں مذہبی برادریوں کو نسل کی بنیاد پر رکھا گیا ہے۔ اس گروپ میں شامل افراد کی کُل تعداد قریب 40 کروڑ ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Heunis
سکھ مذہب
اپنی رنگا رنگ ثقافت کے لیے دنیا بھر میں مشہور سکھوں کی کُل آبادی 2.3 کروڑ کے لگ بھگ ہے۔
تصویر: NARINDER NANU/AFP/Getty Images
یہودی مذہب
یہودیوں کی تعداد عالمی آبادی میں 0.2 فیصد ہے جبکہ اس مذہب کے ماننے والوں کی تعداد 1.4 کروڑ کے قریب ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/W. Rothermel
جین مت
جین مذہب کے پیروکار بنیادی طور پر بھارت میں آباد ہیں ۔ جین مت کے ماننے والوں کی تعداد 42 لاکھ کے آس پاس ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/N. Ut
شنتو عقیدہ
اس مذہب کے پیروکار زیادہ تر جاپان میں پائے جاتے ہیں اور اس عقیدے سے منسلک رسوم اُس خطے میں صدیوں سے رائج ہیں تاہم اس کے پیرو کاروں کی تعداد صرف تین ملین ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K. Mayama
11 تصاویر1 | 11
باقاعدگی سے رپورٹ کی تیاری
جرمنی میں وفاقی حکومت کی سطح پر ایسے ایک اہلکار کی تقرری عمل میں آئے گی، یہ بات موجودہ مخلوط حکومت کے قیام کے معاہدے میں ایک سال پہلے میرکل کی جماعت سی ڈی یو، سی ایس یو اور سوشل ڈیموکریٹس کی جماعت ایس پی ڈی کے مابین طے پائی تھی۔ اس اہلکار کو باقاعدگی سے اپنی رپورٹیں بھی پیش کرنا ہوتی ہیں۔
اب تک جرمنی میں ایسی کوئی رپورٹ صرف ایک ہی بار پیش کی گئی تھی، 2016ء میں۔ لیکن مستقبل میں وفاقی حکومت کا ارادہ ہے کہ ایسی رپورٹیں ہر دو سال بعد پیش کی جایا کریں گی۔
مارکوس گرُوئبل کی عمر 59 برس ہے، ان کا تعلق جنوبی جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ سے ہے اور وہ 2002ء سے جرمنی میں وفاقی پارلیمان کے رکن چلے آ رہے ہیں۔ اس وقت ان کا دفتر جرمنی کی ترقیاتی امدا دکی وزرات میں واقع ہے۔
جرمنی بھی ان کے دائرہ کار کا حصہ
مارکوس گرُوئبل کو دنیا بھر میں مذہبی آزادیوں کی صورت حال پر نظر رکھنا ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے باضابطہ دائرہ کار میں جرمنی بھی شامل ہے، کیونکہ ’جرمنی بھی تو اسی دنیا کا ایک ملک ہے‘۔ ان کے بقول جرمنی میں بھی کئی معاملات ایسے ہیں، جن پر مذہبی آزادیوں کے حوالے سے ریاست کو غور کرنے کی ضرورت ہے۔
برقعہ، حجاب اور نقاب، اسلام میں پردے کے مختلف رنگ
مذہبِ اسلام میں مسلمان عورتوں کو اپنا جسم ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن ایک عورت کو کتنا پردہ کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے مسلمان علماء مختلف رائے بھی رکھتے ہیں۔ چند مذہبی ملبوسات اس پکچر گیلری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
حجاب
زیادہ تر علما کی رائے میں حجاب جو کہ عورت کے سر اور گردن کو ڈھکتا ہے، عورتوں کو پہننا لازمی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف ڈیزائنوں اور رنگوں کے حجاب پہننا پسند کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
چادر
کئی مسلم ممالک میں چادر خواتین کے لباس کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ، اور کچھ دیگر علاقوں میں عورتیں گھروں سے باہر چادر پہنے بغیر نہیں نکلتیں۔ چادر زیادہ تر سفید یا کالے رنگ کی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نقاب
نقاب عورت کے چہرے کو چھپا دیتا ہے اور صرف آنکھیں نظر آتی ہیں۔ کئی مرتبہ نقاب کا کپڑا اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ عورت کی چھاتی اور کمر بھی ڈھک جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
عبایا
عبایا ایک کھلی طرز کا لباس ہے جس میں پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کے عبایا زیب تن کرتی ہیں۔ مختلف موقعوں پر مختلف طرح کے عبایا پہنے جاتے ہیں۔ ان میں دیدہ زیب کڑھائی والے اور سادے، دونوں طرح کے عبایا شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Haider
برقعہ
برقعہ بھی عبایا کی ہی ایک قسم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے کچھ حصوں میں ’ٹوپی برقعہ‘ پہنا جاتا ہے جس میں عورتیں آنکھوں کے سامنے والے کپڑے میں کچھ سوراخوں سے ہی باہر دیکھ سکتی ہیں۔
تصویر: AP
کوئی پردہ نہیں
بہت سی مسلمان عورتیں اپنے سر کو حجاب سے نہیں ڈھکتیں اور جدید ملبوسات پہننا پسند کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
6 تصاویر1 | 6
اس کی ایک مثال دیتے ہوئے گرُوئبل نے کہا کہ مسلمانوں اور یہودیوں کے لیے گوشت کا اسلامی یا یہودی عقیدے کے مطابق حلال ہونا لازمی ہوتا ہے۔ لیکن مسلمانوں اور یہودیوں دونوں کے لیے جرمنی میں مذہبی تقاضوں کے مطابق جانوروں کے ذبح کیے جانے کا انتظام مجموعی طور پر تسلی بخش نہیں ہے۔
مزید یہ کہ مسیحی آبادی کے لیے کلیساؤں کی گھنٹیوں کا بجنا بھی مذہبی طور پر اہم ہے جبکہ جرمنی میں مسلم اقلیت پر ترک ریاست کا اثر و رسوخ بھی ایک ایسا متنازعہ معاملہ ہے، جس کا برلن حکومت خاتمہ چاہتی ہے، اس لیے کہ جرمنی کی مساجد میں سے اکثر کے امام ایک ترک ریاستی ادارے کی طرف سے جرمنی بھیجے جاتے ہیں۔
مذہب کا کام چونکا دینا نہیں
مارکوس گرُوئبل کے مطابق اسلام دشمنی، سامیت دشمنی، تارکین وطن کی مذہبی ضروریات اور خواتین کے حقوق میں مذاہب کا کردار، یہ سب وہ عوامل ہیں، جن پر جرمنی میں بھی غور و فکر کی ضرورت ہے۔ گرُوئبل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مذہب جرمنی میں بھی ایک چونکا دینے والا لفظ ہے اور ضرورت اس بات کی ہےکہ اس لفظ کو دنیا میں کہیں بھی انسانوں کو چونکا دینا نہیں بلکہ برداشت، احترام، سکون اور امن کا احساس دلانا چاہیے۔
کرسٹوف اشٹراک / م م / ع ا
جرمنی میں ہزار سال سے بھی پرانے کیتھیڈرل
جرمنی ميں کئی ايسے تاریخی کیتھیڈرل موجود ہيں، جو ايک ہزار برس سے بھی زیادہ عرصہ قبل تعمير کيے گئے تھے تاہم ان کی تعمیراتی شان و شوکت اور مذہبی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔
تصویر: picture-alliance/Fotoagentur Kunz
سينٹ پيٹرز کيتھيڈرل، ٹريئر
جرمنی کا سب سے قديم کيتھيڈرل اس ملک کے سب سے پرانے اور تاريخی شہر ميں ہی واقع ہے۔ ٹريئر 313 عيسوی ميں بشپ کی مذہبی عمل داری کا مرکز بنا اور اسی وقت وہاں ايک تاريخی گرجا گھر کا قيام عمل ميں آيا۔ ہائی کيتھيڈرل آف سينٹ پيٹرز کی بنياد نويں صدی ميں رومنوں نے رکھی تھی۔ اسے آج جرمنی کا قديم ترين کيتھيڈرل مانا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Bildagentur Huber
’دا ہولی روب‘
ٹريئر کے کيتھيڈرل ميں سب سے قيمتی شے يسوح مسيح کی چادر يا ان کا لباس ہے، جسے ’دا ہولی روب‘ کہا جاتا ہے۔ تاريخ دان کہتے ہيں کہ رومن شہنشاہ کونسٹينٹين کی والدہ ہيلينا چوتھی صدی ميں يہ چادر ٹريئر لے کر آئی تھيں۔ اسے اس کيتھيڈرل کے بشپ کی دعوت پر شاز و نادر ہی نمائش کے ليے نکالا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Dietze
آخن کيتھيڈرل
رومن شہنشاہ شارليمينگے آخن ميں وسيع پيمانے پر تعميرات کے ذريعے وہاں ايک نيا روم قائم کرنا چاہتا تھا۔ آج اس جرمن شہر ميں قائم کيتھيڈرل کا کليدی حصہ ايک گرجا گھر ہے، جسے صرف دس سال کے عرصے ميں مکمل کيا گيا تھا۔ آخن کيتھيڈرل کو سن 1978 ميں يونيسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں کی فہرست ميں شامل کيا گيا تھا۔ يہ اس فہرست کا حصہ بننے والا جرمنی کا پہلا ثقافتی مقام تھا۔
تصویر: Fotolia/davis
آخن کيتھيڈرل کا گنبد
آخن کيتھيڈرل کا گنبد، جسے کپولا بھی کہا جاتا ہے، بتيس ميٹر اونچا ہے۔ شاید يہ آج کل کی تعميرات کے لحاظ سے کوئی انہونی بات نہيں ليکن اس قديم وقت کے لوگوں کے ليے يہ ايک انتہائی بڑا شاہکار تھا۔ کئی صدیوں کے دوران جرمنی کے تيس بادشاہوں اور حکمرانوں کی تاج پوشی اسی گنبد تلے ہوئی تھی۔
تصویر: DW/Muhammad Mostafigur Rahman
شارليمانيے کا مقبرہ
رومن شہنشاہ شارليمانيے 814 عیسوی ميں وفات پا گيا تھا، جس کے بعد اسے آخن کيتھيڈرل ميں دفنا ديا گيا تھا۔ سنہرے رنگ کا یہ مقبرہ اسی کا ہے۔ آخری مرتبہ محققين نے يہ مقبرہ سن 1988 ميں کھولا تھا، جس پر انہيں پتہ چلا کہ شارليمانيے کا قد 1.84 ميٹر تھا، جو اس وقت کے لوگوں کی قد کے لحاظ سے کافی اچھا قد تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Berg
سينٹ مارٹنز کيتھيڈرل، مائنز
مائنز کيتھيڈرل کے ايک ہزار برس مکمل ہونے پر دو مرتبہ تقريبات کا انعقاد ہو چکا ہے۔ پہلی مرتبہ سن 1975 ميں، جب اس کی بنياد رکھنے کے عمل کو ايک ہزار سال پورے ہوئے۔ پھر دوسری مرتبہ سن 2009 ميں جب کی کی تعمير مکمل ہونے کے ايک ہزار برس پورے ہوئے تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/A. Arnold
بامبرگ کيتھيڈرل
بامبرگ کيتھيڈرل کو جرمن بادشاہ ہينری دوئم کی سالگرہ کے موقع پر چھ مئی سن 1012 کو مذہبی مقاصد کے ليے مختص کر ديا گيا۔ اس وقت اس شاندار تقريب ميں پينتاليس بشپس نے حصہ ليا۔
تصویر: DW/Maksim Nelioubin
میرزےبرگ کيتھيڈرل
يہ کيتھيڈرل جرمن رياست سيکسنی انہالٹ ميں واقع ہے اور سن 2015 ميں اس کے قيام کے ايک ہزار برس مکمل ہوئے۔ اس کيتھيڈرل کی بنياد بشپ تھيٹمار نے سن 1015 ميں رکھی تھی۔ اس کيتھيڈرل کی پرانی ديواريں ہالی ووڈ کی فلموں کے ليے بہترين پس منظر فراہم کرتی ہيں۔ پانچ برس قبل جارج کلونی کی فلم ’دا مونيومنٹس‘ اس مقام پر بھی فلمائی گئی تھی۔
تصویر: Wolfgang Kubak
سينٹ ميريز کيتھيڈرل، ہلڈزہائم
ہلڈزہائم کا کيتھيڈرل خود بھی کافی پرانا ہے ليکن اس کی ديواروں پر گلاب کے پودے اس سے بھی پرانے ہيں۔ اس کيتھيڈرل کی تعمير سن 1061 ميں مکمل ہوئی تھی اور يوں اسے فی الحال ايک ہزار سال پورے نہيں ہوئے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Stratenschulte
وورمز کيتھيڈرل
وورمز کے سينٹ پيٹرز کيتھيڈرل کی تعمير ٹھیک ایک ہزار برس قبل سن 1018 ميں مکمل ہوئی تھی۔ اسے برشارڈ آف وورمز نے تعمير کرايا تھا۔