مذہب کا سوال، جرمنی میں لادین ہونے کی بنیاد پر سیاسی پناہ؟
5 مئی 2018
جرمنی میں سیاسی پناہ کے متلاشی ایسے افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، جو الحاد کو جواز بنا کر پناہ کے خواہاں ہیں۔ لیکن اس حوالے سے جرمن قوانین بہت واضح نہیں ہیں، کیوں کہ مذہب کسی بھی انسان کا ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔
اشتہار
جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے ملحد ہونے کو بطور جواز پیش کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی مسلم اکثریتی معاشروں میں اسلام چھوڑ کر لادین ہو جانا قابل سزا جرم بھی ہے۔ بعض ممالک میں تو اس پر موت کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
اس کے باوجود جرمنی اور کئی دیگر یورپی ممالک میں ملحد ہونے کی وجہ سے جبر کا سامنا کرنے کی بنیاد پر پناہ کی تلاش میں آنے والوں کو سیاسی پناہ دینے یا نہ دینے کے فیصلوں میں کافی ابہام پایا جاتا ہے۔
جرمنی میں اسلام چھوڑ کر ملحد ہو جانے والے افراد کی کونسل کی سربراہ مینا احدی کا کہنا ہے کہ وہ کئی برسوں سے مسلم ممالک سے آئے ہوئے ایسے تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے لیے قوانین میں تبدیلیوں کی وکالت کر رہی ہیں۔ انفومائگرینٹس نامی ویب سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے احدی کا کہنا تھا، ’’موجودہ صورت حال سے ہم خوش نہیں ہیں۔ ماضی میں کچھ جرمن عدالتوں نے تو سیاسی پناہ کے حصول کے جواز میں ملحد ہو جانے کو یہ کہتے ہوئے درست جواز تسلیم نہیں کیا کہ مذہب کسی بھی شخص کا نجی معاملہ ہے۔‘‘
کتنے پاکستانیوں کو یورپ سے نکال دیا گیا؟
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کس یورپی ملک نے غیر قانونی طور پر مقیم کتنے پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور کتنے پاکستانی شہری اس ملک سے چلے گئے؟ اس بارے میں یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار:
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
برطانیہ
یورپی ملک برطانیہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قریب چالیس ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر مقیم تھے جنہیں انتظامی یا عدالتی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ستائیس ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
یونان
یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر واقع ملک یونان سے پچھلے پانچ برسوں میں تینتالیس ہزار پاکستانی شہری ایسے تھے جنہیں یونان میں قیام کی قانونی اجازت نہیں تھی اور انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں سولہ ہزار سات سو پاکستانی یونان چھوڑ کر گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Lafabregue
فرانس
فرانس نے جنوری سن 2012 اور دسمبر 2016 کے درمیان غیر قانونی طور پر وہاں موجود ساڑھے گیارہ ہزار پاکستانیوں کو فرانس سے چلے جانے کا حکم دیا۔ اس عرصے میں تاہم 2650 پاکستانی شہری فرانس چھوڑ کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Widak
سپین
اسی دورانیے میں اسپین میں حکام یا عدالتوں نے جن پاکستانی باشندوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ان کی تعداد پونے آٹھ ہزار بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں ساڑھے چھ سو پاکستانی اسپین سے واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک چلے گئے۔
تصویر: dapd
بیلجیئم
بیلجیئم میں حکام نے ان پانچ برسوں میں قریب ساڑھے پانچ ہزار ایسے پاکستانیوں کو اپنی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا، جنہیں بلیجیم میں قانونی طور پر قیام کی اجازت نہیں تھی۔ اس عرصے میں ملک سے چلے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 765 رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand
جرمنی
سن 2012 میں جرمنی میں محض پونے چار سو پاکستانی ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر ملک جرمنی سے جانا تھا تاہم سن 2016 میں ایسے افراد کی تعداد چوبیس سو تھی اور ان پانچ برسوں میں مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دورانیے میں 1050 پاکستانی باشندے عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت جرمنی سے چلے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
آسٹریا
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آسٹریا سے مجموعی طور پر 3220 پاکستانی باشندوں کو ملکی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا اور اس دوران 535 پاکستانی آسٹریا چھوڑ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ہنگری
ہنگری نے بھی سن 2012 سے لے کر 2016 کے اختتام تک قریب تین ہزار پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر مقیم قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا، تاہم اس دوران ہنگری کی حدود سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد قریب پندرہ سو رہی۔
تصویر: Jodi Hilton
اٹلی
انہی پانچ برسوں کے دوران اطالوی حکام نے بھی ڈھائی ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر وہاں مقیم پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ یورو سٹیٹ کے مطابق اس عرصے میں اٹلی سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد محض چار سو افراد پر مبنی رہی۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
یورپ بھر میں مجموعی صورت حال
مجموعی طور پر اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور انہیں عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ مجموعی طور پر 54 ہزار سات سو سے زائد پاکستانی یورپی یونین کے رکن ممالک سے چلے گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
10 تصاویر1 | 10
انفرادی درخواستوں کے جائزے کے بعد فیصلے
اس حوالے سے بی اے ایم ایف کا کہنا ہے کہ جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے، ان کا انفرادی جائزہ لینے کے بعد کیے جاتے ہیں۔
انفومائگرینٹس کے اس حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے تحریری جواب میں جرمنی میں مہاجرین اور تارکین وطن سے متعلق اس وفاقی دفتر نے بتایا، ’’سیاسی پناہ کی درخواست قبول یا مسترد کیے جانے کا انحصار نہ تو درخواست گزار کے پس منظر پر ہے، نہ ہی اس کے مذہب اور نہ ہی اس کے لادین ہونے پر۔‘‘
بی اے ایم ایف کا کہنا ہے کہ سیاسی پناہ کے خواہش مند افراد کو انٹرویو میں یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ جرمن حکام کو بتائیں کہ وطن واپسی کی صورت میں ان کی جانوں کو کن بنیادوں پر خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
’الحاد کا مطلب موت‘
مینا احدی کا تاہم کہنا ہے کہ سیاسی پناہ کے بارے میں فیصلے کرنے والے اہلکاروں اور عدالتوں کے ججوں کو اس معاملے کی شدت کا اندازہ نہیں ہے۔
احدی کا کہنا تھا، ’’وہ دوسرے ممالک کے زمینی حقائق سے واقفیت نہیں رکھتے۔ کئی جج اس بارے میں دستاویزی ثبوت مانگتے ہیں، ہمارا ادارہ ایسے پناہ گزینوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے اور ہر قسم کے شواہد جمع کرائے جانے کے باوجود ملحدوں کو سیاسی پناہ ملنے کا تناسب صرف تیس فیصد ہے۔‘‘
’تحقیق اور معلومات کی کمی‘
انسانیت اور لادینیت کی بنیاد پر انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیم گیورڈونا برونو فاؤنڈیشن کے سربراہ ڈاکٹر مشائیل شمٹ سالومون کا کہنا ہے کہ جرمنی اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا۔ ان کے بقول، ’’بین الاقوامی قوانین کے مطابق دنیا کے سبھی مذاہب برابر سمجھے جاتے ہیں۔ ہمیں سیاسی پناہ کے قوانین میں بھی اسی اصول کو اپنانا چاہیے۔ اس لیے یہ ایک قانونی نکتہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر سالومون کا تاہم یہ بھی کہنا تھا کہ حالیہ برسوں کے دوران اسلام ترک کرنے والے افراد کی جانب سے شروع کردہ آگہی مہموں کے باعث اب بی اے ایم ایف کے اہلکاروں میں اس حوالے سے زیادہ معلومات پائی جاتی ہیں۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلم اکثریتی ممالک میں ملحدوں کو درپیش مسائل کے بارے میں مزید آگہی کی ضرورت اب بھی موجود ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق دسمبر 2017ء تک اپنے وطن سے مہاجرت اختیار کرنے والے انسانوں کی تعداد 258 ملین ہو چکی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے سب سے زیادہ مہاجرت کس ملک کے شہریوں نے اختیار کی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
۱۔ بھارت
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 کے اواخر تک قریب ایک کروڑ ستر لاکھ (17 ملین) بھارتی شہری اپنے ملک کی بجائے بیرون ملک مقیم تھے۔ سن 2000 میں بیرون ملک مقیم بھارتی شہریوں کی تعداد آٹھ ملین تھی اور وہ عالمی سطح پر اس حوالے سے تیسرے نمبر پر تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP
۲۔ میکسیکو
جنوبی امریکی ملک میکسیکو ایک کروڑ تیس لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر ہے۔ بیرون ملک مقیم میکسیکو کے شہریوں کی نوے فیصد تعداد امریکا میں مقیم ہے۔ سن 1990 میں 4.4 ملین اور سن 2000 میں 12.4 ملین میکسیکن باشندے بیرون ملک مقیم تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/Str
۳۔ روس
تیسرے نمبر پر روس ہے جس کے ایک ملین سے زائد شہری بھی اپنے وطن کی بجائے دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2000 میں روس اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا اور اس وقت بھی اس کے قریب گیارہ ملین شہری بیرون ملک مقیم تھے۔
چینی شہریوں میں بھی ترک وطن کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے اور دسمبر 2017 تک ایک کروڑ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ مہاجرت کی عالمی درجہ بندی میں چوتھے نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں بیرون ملک مقیم چینی شہریوں کی تعداد چوالیس لاکھ تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/I. Infantes
۵۔ بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش اقوام متحدہ کے تیار کردہ اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق پچہتر لاکھ سے زائد بنگالی شہری دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔
تصویر: DW
۶۔ شام
خانہ جنگی کا شکار ملک شام کے قریب ستر لاکھ شہری بیرون ملک مقیم ہیں۔ شام سن 1990 میں اس عالمی درجہ بندی میں چھبیسویں نمبر پر تھا تاہم سن 2011 میں شامی خانہ جنگی کے آغاز کے بعد لاکھوں شہری ہجرت پر مجبور ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
۷۔ پاکستان
ساٹھ لاکھ سے زائد بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ پاکستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں 34 لاکھ جب کہ سن 2005 کے اختتام تک 39 لاکھ پاکستانی شہری بیرون ملک آباد تھے۔ تاہم سن 2007 کے بعد پاکستانی شہریوں میں دوسرے ممالک کا رخ کرنے کے رجحان میں نمایاں اضافہ ہوا۔
تصویر: Reuters/S. Nenov
۸۔ یوکرائن
سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی میں یوکرائن اس عالمی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر تھا۔ بعد ازاں یوکرائینی باشندوں کی مہاجرت کے رجحان میں بتدریج کمی ہو رہی تھی۔ تاہم روس اور یوکرائن کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد اس رجحان میں ایک مرتبہ پھر اضافہ ہوا ہے۔ اس برس کے اختتام تک 5.9 ملین یوکرائینی شہری بیرون ملک آباد ہیں۔
تصویر: Picture alliance/dpa/Matytsin Valeriy
۹۔ فلپائن
ستاون لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ فلپائن اس درجہ بندی میں نویں نمبر پر ہے۔ سن 2000 میں اپنے وطن سے باہر آباد فلپائینی شہریوں کی تعداد تیس لاکھ تھی۔ گزشتہ سترہ برسوں کے دوران زیادہ تر فلپائینی باشندوں نے امریکا کا رخ کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ F. R. Malasig
۱۰۔ برطانیہ
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اس فہرست میں برطانیہ دسویں نمبر پر ہے جس کے قریب پچاس لاکھ شہری دوسرے ممالک میں آباد ہیں۔ دوسری جانب برطانیہ میں مقیم غیر ملکیوں کی تعداد 8.8 ملین بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/P. Nichols
۱۱۔ افغانستان
آخر میں پاکستان کے ہمسایہ ملک افغانستان کا ذکر بھی کرتے چلیں جو اڑتالیس لاکھ بیرون ملک مقیم شہریوں کے ساتھ اس عالمی درجہ بندی میں گیارہویں نمبر پر ہے۔ سن 1990 میں افغانستان اس فہرست میں ساتویں نمبر پر تھا اور اس کے 6.7 ملین شہری وطن سے باہر مقیم تھے۔ تاہم سن 1995 تک بائیس لاکھ سے زائد افغان شہری وطن واپس لوٹ گئے تھے۔