سیاست دانوں اور انسانی حقوق کے کارکناں نے پاکستان کے قومی دھارے کی جماعتوں کی طرف سے توہین مذہب اور توہین رسالت کے قانون کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور اسے خطرناک رجحان قرار دیا ہے۔
اشتہار
پاکستان تحریک انصاف نے یہ الزام لگایا ہے کہ ن لیگ کی رہنما مریم نواز نے عمران خان کے خلاف توہین مذہب کا الزام لگایا ہے، جس سے ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
عوامی ورکرز پارٹی کے سیکریٹری جنرل بخشل تھلو نے سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال کو برطانوی نو آبادیاتی سوچ کو مظہر قرار دیا اور اس پر سخت تشویش کا بھی اظہار کیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارے سیاسی رہنماؤں کی سوچ اور طرز سیاست برطانوی نو آبادتی حکمرانوں کی طرح ہے، جنہوں نے مذہب کے نام پر برصغیر کے لوگوں میں نفرت کے بیج بوئے، تقسیم بنگال اور مذہبی نفرت کو ہوا دینے کے لیے ریاستی طاقت استعمال کی، جس سے اس خطے کو بہت نقصان ہوا اور پورے خطے میں مذہبی منافرت پھیلی۔‘‘
بخشل تھلو کے مطابق مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے، ''جب کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہمارا تو ہمیشہ سے یہ موقف ہے مذہب اور ریاستی امور علیحدہ علیحدہ ہونے چاہیے اور مذہب کی ریاستی معاملات میں کوئی مداخلت نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
خطرناک رجحان
پاکستان میں توہین رسالت اور مذہب کے مقدمات کے ایک بڑے حصے کا تعلق ملک کے دیہی اور پسماندہ علاقوں سے ہے، جہاں انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق بہت سارے افراد نے ذاتی مفادات، معمولی جھگڑے یا جائیداد کے تنازعے پر بھی اس نوعیت کے مقدمات بنوائے ہیں۔ لیکن ملک میں گزشتہ کچھ برسوں سے بڑی اہم شخصیات پر بھی توہین مذہب اور توہین رسالت کے الزامات لگانے کی کوشش کی گئی۔
ایم کیو ایم کی رہنما اور رکن قومی اسمبلی کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ اب اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی اس طرح کے الزامات لگا رہے ہیں اور مذہب کا سیاسی استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''عمران خان اور مریم نواز دونوں ہی بہت پڑھے لکھے ہیں اور دونوں کا تعلق اشرافیہ سے ہے۔ اس کے باوجود یہ تاثر ہے کہ وہ مذہب کو سیاسی طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ توہین مذہب اور توہین رسالت کے استعمال سے سیاسی مقبولیت حاصل کرنے کا عمل بہت خطرناک ہے، جس سے ہمیں ہر صورت اجتناب کرنا چاہیے۔‘‘
’ مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہونی چاہیے‘
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ مذہب کے نام پر سیاست کرنے سے نہ صرف ملک کی اقلیتوں میں احساس بیگانگی بڑھا بلکہ اس سے ملک میں فرقہ واریت بھی بڑھی۔ کشور زہرہ کا کہنا ہے کہ توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال سے پہلے اقلیتوں کو نشانہ بنایا گیا، پھر عام مسلمان کو اور اب سیاست دان اس کی زد میں ہے۔ لہذا مذہب کے نام پر سیاست نہیں ہونی چاہیے۔
پاکستان کا کون سا وزیر اعظم کتنا عرصہ اقتدار میں رہا؟
پاکستان کی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔ انہیں مختلف وجوہات کی بنا پر مقررہ مدت سے پہلے ہی عہدہ چھوڑنا پڑا عمران خان 22ویں وزیر اعظم تھے۔
تصویر: STF/AFP/GettyImages
لیاقت علی خان: 4 سال، 2 ماہ کی حکومت
لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے 15 اگست 1947 ء کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ انہیں 16 اکتوبر 1951ء کو راولپنڈی میں ایک شخص نے گولی مار کر قتل کر دیا۔ وہ اپنی موت سے قبل مجموعی طور پر 4 سال 2 ماہ تک وزیر اعظم رہے۔
تصویر: Wikipedia/US Department of State
خواجہ ناظم الدین: 1 سال 6 ماہ
لیاقت علی خان کے قتل کے ایک دن بعد 16 اکتوبر 1951 ء کو خواجہ ناظم الدین نے اقتدار سنبھالا۔ 17 اپریل 1953 ءکو ناظم الدین کو گورنر جنرل نے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل کے بطور بھی فرائض انجام دے چکے تھے۔
تصویر: Douglas Miller/Keystone/Hulton Archive/Getty Images
محمد علی بوگرہ: 2 سال 3 ماہ
17 اپریل 1953ء کو گورنر جنرل محمد علی نے بوگرہ کو وزیر اعظم مقرر کیا۔ تاہم 12 اگست 1955ء کو انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
چودھری محمد علی: 1 سال 1 مہینہ
12 اگست 1955ء کو چودھری محمد علی کو پاکستان کے چوتھے وزیر اعظم کے طور پر نامزد کیا گیا۔ چودھری محمد علی کا نام آج بھی پاکستان میں 1956 ء کے آئین میں ان کے اہم کردار کے لیے لیا جاتا ہے۔ تاہم، انہوں نے 12 ستمبر 1956 ء کو پارٹی کے ارکان کے ساتھ تنازعہ کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: akg images/picture alliance
حسین شہید سہروردی: 1 سال، 1 مہینہ
حسین شہید سہروردی 12 ستمبر 1956ء کو وزیر اعظم بنے۔ لیکن صدر سکندر مرزا سے اختلاف کی وجہ سے اسکندر نے 16 اکتوبر 1957 ءکو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/Wikipedia
ابراہیم اسماعیل چندریگر: 2 ماہ سے بھی کم
آئی آئی چندریگر کے نام سے معروف ابراہیم اسماعیل چندریگر 18 اکتوبر 1957 ء کو چھٹے وزیر اعظم کے طور پر مقرر ہوئے۔ انہوں نے اسی سال 16 دسمبر کو استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikimedia
ملک فیروز خان نون: 10 ماہ سے کم
16 دسمبر 1957 ءکو اسکندر مرزا نے فیروز خان نون کو پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، سات کتوبر 1958 ء کو جنرل ایوب خان نے نون کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔
تصویر: Fox Photos/Hulton Archive/Getty Images
نورالامین: 13 دن
6 دسمبر 1971 ء کو 13 سال کے مارشل لاء کے بعد نورالامین کو فوجی آمر یحییٰ خان کی انتظامیہ میں وزیر اعظم بنا دیا گیا۔ مشرقی پاکستان کے سقوط کے بعد، عہدہ سنبھالنے کے صرف تیرہ دن بعد 20 دسمبر کو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تصویر: gemeinfrei/wikipedia
ذوالفقار علی بھٹو، 3 سال 11 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو 14 اگست 1973 ءکو وزیر اعظم بنے۔ وہ 1976 ء میں دوبارہ الیکشن لڑے اور جیت گئے۔ تاہم، فوجی بغاوت کے بعد انہیں قید کر دیا گیا اور چار اپریل 1979 ءکو انہیں پھانسی دے دی گئی۔
تصویر: imago/ZUMA/Keystone
محمد خان جونیجو: 3 سال، 2 ماہ
محمد خان جونیجو 23 مارچ 1985 ء کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 29 مئی 1988 ء کو جونیجو کی حکومت برطرف کر دی گئی۔
تصویر: Sven Simon/IMAGO
بے نظیر بھٹو: 1 سال 6 ماہ
ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو 2 دسمبر 1988 ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ چھ اگست 1990 ء کو صدر غلام اسحاق خان نے ان کی حکومت برطرف کر دی۔
تصویر: ZUMA Wire/IMAGO
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
نواز شریف نے 8 نومبر 1990 ء کو چارج سنبھالا۔ تاہم، 1993ء میں دوبارہ صدر غلام اسحاق خان نے ایک منتخب حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے شریف حکومت کو بحال کر دیا۔ لیکن پھر 18 جولائی 1993 ء کو نواز شریف مستعفی ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary
نواز شریف: 2 سال، 6 ماہ
17 فروری 1997 ء کے انتخابات کو نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ تاہم 12 اکتوبر 1999 ءکو جنرل پرویز مشرف نے ملک میں مارشل لا نافذ کر کے نواز شریف کو اقتدار سے ہٹا دیا۔
تصویر: K.M. Chaudary/AP/dpa/picture alliance
میر ظفر اللہ خان جمالی: 1 سال، 6 ماہ
نومبر 2002 ء میں ظفر اللہ خان جمالی پرویز مشرف کے دور میں پہلے وزیر اعظم بنے۔ تاہم 26 جون 2004 ء کو انہوں نے اچانک استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: Aamir Qureschi/AFP
چودھری شجاعت حسین: 2 ماہ
چودھری شجاعت حسین 30 جون 2004 کو پارلیمانی انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنے۔ انہوں نے شوکت عزیز کے وزیر اعظم منتخب ہونے تک تقریباﹰ دو ماہ اپنی خدمات انجام دیں۔
تصویر: Bilawal Arbab/dpa/picture alliance
شوکت عزیز، 3 سال 2 ماہ
شوکت عزیز 26 اگست 2004 ءکو وزیراعظم مقرر ہوئے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنی مدت پوری کرنے کے بعد 15 نومبر 2007 ء کو پارلیمان کی مدت پوری ہونے پر سبکدوش ہو گئے۔ اس حوالے سے وہ پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے، جو پارلیمانی مدت کے خاتمے کے ساتھ سبکدوش ہوئے۔
تصویر: Yu Jie/HPIC/picture alliance
یوسف رضا گیلانی: 4 سال، ایک ماہ
25 مارچ 2008 ء کو عام انتخابات کے بعد یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے۔ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کی۔ تاہم انہیں 2012 ء میں توہین عدالت کے مقدمے میں مختصر سزا سنائے جانے کے بعد یہ وزارت عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا۔
تصویر: AP
راجہ پرویز اشرف: 9 ماہ
راجہ پرویز اشرف نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کی باقی ماندہ مدت مکمل کرنے کے لیے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔ وہ 22 جون 2012 ء سے 24 مارچ 2013 ء تک اس عہدے پر فائز رہے۔
تصویر: dapd
نواز شریف: 4 سال، 2 ماہ
5 جون 2013 ءکو نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو تین بار وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ 26 جولائی 2016 ء کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
شاہد خاقان عباسی: ایک سال سے بھی کم
نواز شریف کی برطرفی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اگست 2016 ء میں یہ ذمہ داری سنبھالی تھی۔ تاہم ان کی وزارت عظمیٰ پارلیمان کی مدت مکمل ہونے پر یکم جون 2018 ء کو ختم ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Moon
عمران خان: تین سال 6 ماہ
عمران خان 18 اگست2018 ءکو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 10اپریل 2022 ءکو عمران خان قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے۔ وہ ایسے پہلے پاکستانی رہنما ہیں، جو پارلیمان کی جانب سے عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے۔
تصویر: Anjum Naveed/AP/dpa/picture alliance
21 تصاویر1 | 21
کشور زہرہ کے مطابق اس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو بنگلہ دیش سے سیکھنا چاہیے، ''وہ ملک ہم سے بہت بعد میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا لیکن وہاں سیاست دانوں نے کسی حد تک یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ مذہب اور سیاست کو علحیدہ ہونا چاہیے۔ ہماری جماعت ایم کیو ایم میں کئی خامیاں ہوں گی لیکن ہم نے پہلے دن سے ہی یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ مذہب کے نام پر سیاست نہیں کی جائیگی اور یہی تمام سیاسی جماعتوں کو بھی کرنا چاہیے۔‘‘
مریم کی ٹویٹ
واضح رہے کہ مریم نواز نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا تھا، ''دین کو اپنی گندی اور مکروہ سیاست اور جھوٹ کو فروغ دینے کے لیے استعمال کرنے والے شیطان سے اپنے ایمان اور ملک کو بچائیں۔‘‘ انہوں نے عمران خان اور تحریک انصاف کا پرچم بھی اپلوڈ کیا تھا، جس پر عمران خان کی تقاریر کے کچھ جملے درج تھے اور ساتھ ہی قرآنی آیات کے تراجم بھی دیے گئے تھے۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا، ''سیاسی اختلافات ایک طرف، اپنے ایمان کی حفاظت کریں۔‘‘
اشتہار
پی ٹی آئی کا سخت ردعمل
مریم نواز کی اس ٹویٹ پرپی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ حکومت اور تحریک انصاف مریم نواز کے خلاف عدالت جائے گی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ عمران خان کے خلاف سوشل میڈیا پر مریم نواز نے مہم چلوائی، جس میں عمران خان پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا، جس سے ان کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ مریم کی ٹویٹ کے بعد ٹویٹر پر ایک ٹرینڈ چلایا گیا، جس میں عمران خان پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا۔ سابق وفاقی وزیر کا دعوی تھا کہ اس مہم میں پینسٹھ ہزار سے زائد ٹویٹس نے عمران خان کو ہدف تنقید بنایا۔
فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ وہ اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا بلکہ مریم نواز کے خلاف توہین رسالت اور توہین مذہب کو ایک ہتھیار کے طور استعمال کرنے کے خلاف قانونی ایکشن لیا جائے گا کیونکہ اس سے پی ٹی آئی کے چیئرمین کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ مریم کی ٹویٹ کے بعد کچھ لوگوں نے مریم نواز شریف کو بھی ان کی ٹویٹ پر ہدف تنقید بنایا اور مذہب کو سیاست میں میں گھسیٹنے کے عمل کو نامناسب قرار دیا، جس سے کسی کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا ہے۔