مراعات کے باوجود چینی نوجوان کیوں خاندان بڑھانا نہیں چاہتے؟
5 فروری 2023ابھی حال ہی میں 60 سال کے عرصے کے دوران پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ چین کی آبادی میں کمی واقع ہوئی۔ مستقبل کے حوالے سے لگائے جانے والے اندازوں کے مطابق یہ کمی اگلے 30 برس تک تسلسل کے ساتھ جاری رہے گی اور نتیجتاﹰچین کو اب ایک آبادیاتی بحران کا سامنا ہے۔
چناچہ سکڑتی آبادی کے مسئلے سے نبرد آزما چینی حکومت نے معاشی سبسڈیز سمیت ایسی مراعات کا اعلان کیا ہے، جن کا مقصد خاندان بڑھانے کی حوصلہ افزائی اور شرح پیدائش میں اضافہ ہے۔ لیکن یہ اقدام چینی نوجوانوں، خصوصاﹰ خواتین کو قائل کرنے میں ناکام ثابت ہو رہا ہے۔
’ہم اپنے خاندان کی آخری نسل ہوں گے‘
اس بارے میں بات کرتے ہوئے متعدد چینی نوجوانوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہیں۔ ان کا یہی رویہ شادی اور خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق ان کی بدلتی سوچ کا عکاس بھی ہے۔
چین کے شہر شنگھائی میں رہائش پذیر 25 سالہ ایما لی کہتی ہیں کہ اکثر چینی نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے اور زندگی بہت دباؤ کا شکار ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسے میں اولاد ہونے سے پریشانیوں میں اضافہ ہی ہو گا، ’’اسی لیے ہم میں سے کئی (افراد) نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے خاندانوں کی آخری نسل ہوں گے۔‘‘
ایما نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میری اپنے متعدد دوستوں سے شادی اور اولاد سے متعلق بات ہوئی ہے اور ان میں سے کئی خاندانی منصوبہ بندی کی روایتی طریقے اپنانے کی کوئی خواہش نہیں رکھتے۔‘‘
دیگر چینی نوجوانوں کے خیالات بھی ایما اور ان کے دوستوں کی سوچ سے مختلف نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چین کا دباؤ والا (stressful) طرز زندگی اور روزمرہ کی پریشانیاں انہیں خاندان کی تشکیل سے روکتی ہیں۔
بیجنگ کی 27 سالہ سنتھیا لیو کا کہنا ہے، ’’کام کے طویل اوقات، روزگار کی پریشانی اور مہنگائی کے اس دور میں کم تنخواہوں میں گزارا کرنے کے ساتھ ساتھ اولاد کی پرورش کرنا ناممکن ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’کتابوں، فلموں اور ویڈیو گیمز پر حکومت کی سخت سینسر شپ کی وجہ سے ہمیں یہ نہیں پتا کہ ہم اپنے بچوں کے لیے اچھا بچپن کیسے یقینی بنائیں۔ ہمارے ہمدردی کے جذبے اور ذمے داری کے احساس نے ہمیں کافی حد تک قائل کر لیا ہے کہ ہم اس طرح کی دنیا میں مزید نئی زندگیوں کا اضافہ نہ کریں۔‘‘
چینی خواتین کی بدلتی ترجیحات
امریکہ کی یونیورسٹی آف میشی گن سے وابستہ معاشرتی علوم کی پروفیسر یون ژو کے مطابق چینی لیبر مارکیٹ میں موجود صنفی تفریق اور خواتین سے ماں بننے اور اس کردار کو نبھانے کی بے تحاشا توقعات بھی چینی باشندوں کے شادی اور اولاد پیدا نہ کرنے کا باعث بن رہی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ آج کے دور میں چینی نوجوان خواتین کا ایک کامیاب کیریئر بنانے پر زیادہ زور ہے۔
کووڈ، لاک ڈاؤن اور بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال
اس کے علاوہ کووڈ انیس کے دوران لاک ڈاؤن اور حکام کی جانب سے عوام کو زیادہ سے زیادہ کنٹرول کرنے کی پالیسی بھی چینی باشندوں کے مستقبل کی حوالے سے ان کے نقطہ نظر پر خاطر خواہ اثر اندازی ہوئی ہے۔
چینی شہر تیانجن کے رہنے والے 26 سالہ ایڈم وینگ کا اس بارے میں کہنا ہے کہ گزشتہ تین سالوں میں بارہا لاک ڈاؤن لگنے کی وجہ سے چینی باشندوں کی جمع پونجی ختم ہوئی اور وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرنے لگے ہیں۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اب کارخانے اور ڈیلیوری پلیٹ فارمز اپنے ملازمین کو بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہیں اور کووڈ انیس کے دوران چین میں بیروزگاری کی بلند شرح کے باعث زیادہ تر نوجوان سرکاری ملازمت کی تگ ودو میں ہیں۔
ایڈم کہتے ہیں کہ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کے باعث چین میں نوجوانوں کے لیے گزر بسر مشکل ہو گیا ہے، ’’ہم میں سے بہت سوں کے پاس شادی یا بچوں کے بارے میں سوچنے کی (ذہنی) صلاحیت ہی نہیں بچی۔ اور ایسا اس لیے ہےکہ ہم معیاری طرز زندگی بھی برقرار نہیں رکھ سکتے۔‘‘
شرح پیدائش میں کمی چینی معیشت کو کیسے متاثر کرے گی؟
ان حالات اور آبادی کے بحران کے پیش نظر چینی حکام نے شادی اور اولاد پیدا کرنے کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف مراعات کا اعلان کیا ہے۔ مثلاﹰ کچھ شہروں میں تین بچوں والے خاندان اب حکومتی سبسڈی کے اہل ہیں اور کچھ شہروں میں لوگوں کو گھر خریدنے کے لیے سبسڈیز دی جا رہی ہیں۔
لیکن یہ ابھی بھی مکمل طور پر واضح نہیں کہ آیا یہ اقدام خاندان بڑھانےکے حوالے سے موثر ثابت ہو گا یا نہیں۔