مراکشی مہاجرین کی اسپین آمد میں اضافہ، میڈرڈ حکومت کو تشویش
26 ستمبر 2018
اسپین کو مراکش سے نوجوان مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب تشویش کا سامنا ہے۔ یورپی یونین کی سرحدی ایجنسی کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 میں اسپین پہنچنے والے چالیس فیصد پناہ گزینوں کا تعلق مراکش اور الجیریا سے تھا۔
اشتہار
مراکش کے نوجوانوں کی اسپین کی طرف ہجرت، جس کی وجہ صرف اقتصادی مسائل اور غربت ہی نہیں ہے، اسپین کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
فرنٹیکس کا کہنا ہے کہ سن 2017 میں چالیس فیصد تارکین وطن جو اسپین کے ساحلوں تک پہنچے، مراکش اور الجیریا کے شہری تھے۔ اسپین کی وزارت داخلہ کی جاری کردہ ایک رپورٹ جو ملکی اخبار’ایل پائیس‘ نے شائع کی، میں بتایا گیا ہے کہ سن 2018 میں اس رحجان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق رواں برس ستمبر کے وسط تک غیر قانونی طور پر اسپین پہنچنے والے 33،315 تارکین وطن میں سے 6،433 افراد مراکش کے شہری تھے۔
مراکشی شہریوں کے ترک وطن میں اضافے کے اسباب میں ملازمتوں کا نہ ملنا، متنازعہ علاقوں میں گزشتہ موسم گرما میں سماجی مظاہروں پر عائد کی جانے والی پابندی اور حال ہی میں کیا گیا یہ اعلان ہیں، جس کی رُو سے سن 2006 میں معطل کیے جانے والے فوجی ڈرافٹ کو از سر نو انیس سے پچیس سال کی عمر کی خواتین اور مرد حضرات پر دوبارہ نافذ کیا جا رہا ہے۔
لیکن مراکش سے مہاجرت کی زیادہ بڑی وجوہات بیروزگاری اور کم تنخواہیں ہیں۔ اسپین کے میڈیا نے اس تناظر میں ایک مراکشی تارک وطن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا،’’ وہاں بیروزگاری حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے۔ خوراک اور ایندھن کی قیمتیں بڑھتی جا رہی ہیں اور اس کے مقابلے میں تنخواہیں کم ہیں۔
اسپین کی مقامی نیوز ایجنسی ’ای ایف ای‘ کے مطابق تاہم تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ جولائی تک یہ تعداد ڈھائی لاکھ تھی۔ یہ نمبر اُن سات لاکھ تہتر ہزار مہاجرین کے علاوہ ہے جو اسپین میں رہ رہے ہیں۔
دوسری جانب مراکش کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ غیر قانونی طور پر ملک چھوڑنے والے شہریوں کو روکنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے اور اس ضمن میں اس نے سال کے آغاز سے اب تک چون ہزار شہریوں کو روکا ہے اور انسانی اسمگلروں کے چوہتر نیٹ ورک تباہ کیے ہیں۔
ص ح / ا ا / نیوز ایجنسی
'موت کے راستے‘ پر زندگی داؤ پر لگاتے افغان مہاجر لڑکے
بیشتر تارکینِ وطن کو اٹلی سے فرانس کے درمیان بارڈر کراس کرنے کے لیے جس راستے پر سفر کرنا پڑتا ہے اسے ’ڈیتھ پاس‘ یا موت کا راستہ کہتے ہیں۔ یہ راستہ بے حد پُر خطر ہے۔ اس سفر کا اختتام بعض اوقات موت پر ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
جنگل میں
پولیس کے تعاقب سے خوفزدہ کم سن افغان لڑکوں کا ایک گروپ بارہ کلو میٹر لمبے ٹریک پر روانہ ہے۔ یہ راستہ ’ڈیتھ پاس ‘ کہلاتا ہے جو اونچی نیچی ڈھلانوں اور خطرناک پہاڑوں پر مشتمل ہے اور فرانس کے سرحدی قصبے ’مونتوں‘ تک جاتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
ایک دھوکے باز راستہ
وہ تارکین وطن جو اٹلی سے فرانس جانے کے لیے اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں اُنہیں سفر کے دوران پتہ چلتا ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے ہر پل موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دلدلی زمین، خطرناک موڑ اور پہاڑوں کا سفر بعض اوقات مہلک ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
زیرِزمین ٹنل
بہت سے مہاجرین فرانس جانے کے لیے جنگلات سے گزر کر ہائی وے تک جاتے ہیں جو اُنہیں اس باڑ تک لے آتی ہے۔ یہاں سے وہ ایک زیرِ زمین ٹنل سے پیدل گزرتے ہیں جو خود کو موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
فطرت پر انحصار
وہ تارکین وطن جو فرانس جانے کے لیے ’ڈیتھ پاس‘ کا انتخاب کرتے ہیں، عموماﹰ وہ یہ اقدام راستے کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر اور کھانے پینے کا سامان ہمراہ لیے بغیر ہی اٹھا لیتے ہیں۔
تصویر: DW/F.Scoppa
بوڑھے کسانوں کے اسٹور ہاؤس
مہاجرین اور تارکین وطن کبھی کبھار بوڑھے کسانوں کے خالی اسٹور ہاؤسز کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں اُنہیں پرانے کپڑے بھی مل جاتے ہیں۔ اپنے نسبتاﹰ صاف اور نئے کپڑوں کے مقابلے میں یہ پرانے کپڑے تبدیل کر کے تارکینِ وطن سمجھتے ہیں کہ اس طرح اُنہیں فرانس کی پولیس سے چھپنے میں مدد ملے گی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر نصب ایک پرچم سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ کس مقام سے سرحد کے دوسری طرف جا سکتے ہیں۔ یہ باڑ فرانس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اٹلی کی جانب سے امیگریشن روکنے کے لیے تعمیر کی تھی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اب کیا کریں؟
افغان مہاجر لڑکے اندازہ لگا رہے ہیں کہ وہ فرانس کے قصبے مونتوں تک جانے کے لیے نیچے ڈھلانی راستے سے کس طرح اتریں۔ اس مقام پر اکثر تارکینِ وطن کو بارڈر پولیس پکڑ لیتی ہے اور اُنہیں واپس اٹلی بھیج دیا جاتا ہے۔