مراکشی نیوی نے قریب ڈھائی سو مہاجرین کو ڈوبنے سے بچا لیا
28 جولائی 2019
جن مہاجرین کو بچایا گیا، وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں پر سوار ہو کر یورپ پہنچنے کی کوشش میں تھے۔ یہ مہاجرین ربر کی کشتیوں کے ذریعے شوریدہ سر بحیرہ روم کو عبور کرنا چاہتے تھے۔
اشتہار
بچائے گئے مہاجرین میں سے زیادہ تر کا تعلق براعظم افریقہ کے سب صحارا خطے کے ممالک سے ہے۔ ان مہاجرین کی تعداد مجموعی تعداد 242 بتائی گئی ہے۔ یہ افراد کمزور کشتیوں پر سوار تھے، جو پلاسٹک کی بنی ہوئی تھیں اور ان میں ہوا بھر کر پھُلایا گیا تھا۔ ایسی کشتیاں عموماً چھوٹے سفر کے لیے استعمال کی جاتی ہیں اور ان پر مقررہ اور محدود افراد کو سوار کیا جاتا ہے۔
پلاسٹک کی ہوا سے بھری ہوئی کشتیوں پر سوار ان افریقی مہاجرین کو بحیرہ روم کے علاقے آبنائے جبرالٹر میں شدید مشکلات کا سامنا تھا اور ایسے میں مراکشی نیوی نے انہیں ریسکیو کر لیا۔ آبنائے جبرالٹر ہی افریقی براعظم کو یورپ سے جدا کرتا ہے۔
مراکش نیوز ایجنسی کے مطابق جن دو سو بیالیس افراد کو بچایا گیا ہے، ان میں بارہ کم سن اور پچاس خواتین بھی شامل ہیں۔ ان افراد کو ریسکیو کرنے کے فوری بعد طبی امداد فراہم کی گئی اور پھر مراکشی سرزمین پر پہنچا دیا گیا۔ یہ امر اہم ہے کہ چند روز قبل ایک یونانی سیاحتی بحری جہاز نے ایک سو سے زائد مہاجرین کو سمندر برد ہونے سے بچایا تھا۔
افریقی مہاجرین کے لیے مراکش کا ملک یورپ پہنچنے کی پہلی منزل ہے۔ آبنائے جبرالٹر کا مشکل راستہ اختیار کرنے سے بھی یہ مہاجرین گریز نہیں کرتے۔ ان مہاجرین کو اس راستے پر عموماً انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد ڈالتے ہیں اور ایک خاص مقام پر پہنچ کر وہ کشتیوں سے سمندر میں کود جانے سے بھی گبھراتے نہیں کیونکہ ایسے افراد کو بچنے کے طریقے معلوم ہوتے ہیں۔
مراکش پہنچنے والے مہاجرین پھر اس کوشش میں بھی ہوتے ہیں کہ کسی طرح اسپین کی سرحد پر قائم خار دار باڑ کو موقع پار کر عبور کیا جائے۔ یہ باڑ سِبتنہ اور ملِیّا نامی ہسپانوی علاقوں کی سرحد پر قائم ہے۔ اس باڑ کی مسلسل نگرانی کی جاتی ہے لیکن مہاجرین اسے عبور کرنے کی کوششیں کئی مرتبہ کر چکے ہیں۔
رواں برس کے دوران اب تک پندرہ ہزار مہاجرین بحیرہ روم کے راستے اسپین پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرت کے مطابق یورپ پہنچنے کی کوشش میں رواں برس دو سو سے زائد انسانی جانیں سمندر میں ڈوب کر ضائع ہو چکی ہیں۔
ع ح، ش ح، نیوز ایجنسیاں
یورپ کے خواب دیکھنے والوں کے لیے سمندر قبرستان بن گیا
مائیگرنٹ آف شور ايڈ اسٹيشن نامی ايک امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب گزشتہ ہفتے چودہ اپریل کو مختلف اوقات میں سمندر ميں ڈوبتی دو کشتیوں تک پہنچی تو کبھی نہ بھولنے والے مناظر دیکھے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
بہتر زندگی کی خواہش
اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق بہتر زندگی کی خواہش رکھنے والے 43،000 تارکین وطن کو رواں برس سمندر میں ڈوبنے سے بچایا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقی ممالک سے تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
آنکھوں میں خوف کے سائے
ڈوبنے سےبچ جانے والا ایک مہاجر بچہ فینکس کے امدادی اسٹیشن پر منتقل کیا جا چکا ہے لیکن اُس کی آنکھوں میں خوف اور بے یقینی اب بھی جوں کی توں ہے۔ اس مہاجر بچے کو وسطی بحیرہ روم میں لکڑی کی ایک کشتی ڈوبنے کے دوران بچایا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
کم سن بچہ سمندر کی گود میں
رواں ماہ کی پندرہ تاریخ کو فونیکس کشتی کے عملے نے ایک چند ماہ کے بچے کو اُس وقت بچایا جب کشتی بالکل ڈوبنے والی تھی۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
عملے کی مستعدی
لیبیا کے ساحلوں سے دور بحیرہ روم کے وسطی پانیوں میں ہچکولے کھاتی لکڑی کی ایک کشتی سے ایک بچے کو اٹھا کر فونیکس کے امدادی اسٹیشن منتقل کرنے کے لیے عملے کے اہلکار اسے اوپر کھینچ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
امدادی اسٹیشن پر
مالٹا کی غیر سرکاری تنظیم کے جہاز کے عرشے پر منتقل ہوئے یہ تارکین وطن خوشی اور خوف کی ملی جلی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ انہیں رواں ماہ کی چودہ تاریخ کو ایک ربڑ کی کشتی ڈوبنے پر سمندر سے نکالا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
سمندر میں چھلانگیں
’مائیگرنٹ آف شور ایڈ اسٹیشن نامی‘ امدادی تنظيم کے مطابق اس کی کشتی ’فِينِکس‘ جب سمندر ميں مشکلات کی شکار ايک ربڑ کی کشتی تک پہنچی تو اس پر سوار مہاجرين اپنا توازن کھونے کے بعد پانی ميں گر چکے تھے۔ انہيں بچانے کے ليے ريسکيو عملے کے کئی ارکان نے سمندر ميں چھلانگيں لگا ديں۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
میں زندہ ہوں، یقین نہیں آتا
امدادی کارروائی کے نتیجے میں بچ جانے والے ایک تارکِ وطن نے سمندر سے نکالے جانے کے بعد رد عمل کے طور پر آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اسے اپنے بچ جانے کا یقین نہیں ہو رہا تھا۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا
خبر رساں ادارے روئٹرز کے فوٹو جرنلسٹ ڈيرن زيمٹ لوپی بھی ’فِينِکس‘ پر سوار تھے۔ انہوں نے ريسکيو کی اس کارروائی کو ديکھنے کے بعد بتایا، ’’ميں پچھلے انيس سالوں سے مہاجرت اور ترک وطن سے متعلق کہانياں دنيا تک پہنچا رہا ہوں، ميں نے اس سے قبل کبھی ايسے مناظر نہيں ديکھے جو ميں نے آج ديکھے ہيں۔