مراکش اور اسرائیل ’بہت جلد‘ تعلقات قائم کرنے پر رضامند
11 دسمبر 2020
ٹرمپ کے عہدہ صدارت ختم ہونے سے پہلے امریکی ثالثی میں مراکش، اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے والا چوتھا عرب ملک بن جائے گا۔اسرائیلی وزیر اعظم نے اسے ایک ’پرمسرت‘ پیش رفت قرار دیاہے۔
اشتہار
امریکا کی جانب سے مغربی صحارا پر رباط کی خود مختاری کو تسلیم کرنے کے بعد مراکش کے شاہ محمد ششم نے جمعرات کے روز کہا کہ ان کا ملک اسرائیل کے ساتھ''بہت جلد باضابطہ رابطے اور سفارتی تعلقات قائم کرے گا۔" اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے اس معاہدے کو ’تاریخی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ’خطے میں امن کی اور بھی بڑی روشنی‘ ہے۔
اسرائیل اور عرب ممالک متحدہ عرب امارات، سوڈان اور بحرین کے ساتھ حال ہی میں سفارتی تعلقات قائم کرنے کے معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے یہودیوں کے روشنیوں کے تہوار حنوقہ کے آغاز کے موقع پر جمعرات کو ایک شمع روشن کرنے سے قبل کہا”مجھے ہمیشہ سے یہ یقین تھا کہ یہ تاریخی دن ضرور آئے گا۔"
نیتن یاہو اور محمد ششم نے دونوں ملکوں کے درمیان جلد ہی براہ راست پروازیں شرو ع ہوجانے اور سفارتی مشن کھل جانے کی امید ظاہر کی۔
مزيد فلسطينی علاقہ ضم کرنے کے اسرائيلی منصوبے پر احتجاج
01:30
فلسطینی مذمت
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تنازے اور سیاسی تعطل کے سبب عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان تعلقات استوار کرنا ایک عرصے تک ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ فلسطینیو ں نے مراکش اور اسرائیل کے درمیان تعلقات قائم کرنے کی مذمت کی ہے۔
اشتہار
تنظیم آزادی فلسطین کی ایگزیکیوٹیو کمیٹی کے ایک رکن باسم الصالحی نے اس معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے کہا”سن 2002 کے عرب امن پہل، جس میں مقبوضہ فلسطینی اور عرب علاقوں سے اسرائیل کا قبضہ ختم ہونے کے بعد ہی تعلقات قائم کرنے کی بات کہی گئی ہے، سے کسی طرح کا انحراف، نا قابل قبول ہے۔ اس سے اسرائیل کی جارحیت میں اضافہ ہوگا اور فلسطینی عوام کے حقوق صلب ہوں گے۔"
غزہ میں حکمراں اسلام پسند گروپ حماس کے ترجمان ہازم قاسم نے بھی مراکش کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا ”یہ ایک گناہ ہے اور اس سے فلسطینی عوام کا بھلا نہیں ہوگا۔ اسرائیل نئے تعلقات کو فلسطینی عوام پر اپنی جارحیت میں اضافہ کرنے اور بستیوں میں توسیع کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔"
ٹرمپ کا اظہار مسرت
مراکش کے شاہ محمد ششم سے فون پر بات چیت کرنے کے بعد سب سے پہلے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہی جمعرات کو اعلان کیا کہ مراکش اور اسرائیل باہمی تعلقات قائم کرنے پر متفق ہوگئے ہیں۔
ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا”آج ایک اور تاریخی پیش رفت! ہمارے دو عظیم دوست اسرائیل اور مراکش مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ یہ مشرق وسطی میں امن کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے۔"
وائٹ ہاؤس کے سینئر مشیر جیراڈ کشنر نے کہا کہ ”وہ رباط اور تل ابیب میں فوری طور پر رابطہ دفاتر کھولنے جارہے ہیں جس کا مقصد سفارت خانے کھولنا ہے۔ وہ اسرائیل اور مراکش کی کمپنیوں کے درمیان معاشی رابطوں کے فروغ کے لیے بھی کام کرنے جارہے ہیں۔"
کشنر نے کہا کہ ”آج انتظامیہ نے ایک اور سنگ میل عبور کرلیا ہے، صدر ٹرمپ نے مراکش اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کے لیے ثالثی کی جو اسرائیل کے ساتھ عرب اور مسلمان ممالک کے ساتھ چار مہینوں کے اندر چوتھا معاہدہ ہے۔"
جیرڈ کشنر کا کہنا تھا کہ ”اس سے اسرائیل کی سکیورٹی مزید بہتر ہوگی جبکہ مراکش اور اسرائیل کو اپنے معاشی تعلقات اور شہریوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کا موقع ملے گا۔"
وہ ممالک جنہوں نے ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا
فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کا قیام 1948 میں عمل میں آیا تھا۔ اس بات کو سات دہائیوں سے زائد وقت گزر چکا ہے مگر اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک نے اسے تسلیم نہیں کیا ہے۔ یہ ممالک کون سے ہیں؟
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kahana
1. افغانستان
افغانستان نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک نہ تو اسرائیل کو تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ سن 2005 میں اُس وقت کے افغان صدر حامد کرزئی نے عندیہ دیا تھا کہ اگر الگ فلسطینی ریاست بننے کا عمل شروع ہو جائے تو اس کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ممکن ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
2. الجزائر
عرب لیگ کے رکن شمالی افریقی مسلم اکثریتی ملک الجزائر اسرائیل کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتا اس لیے دونوں کے مابین سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔ الجزائر سن 1962 میں آزاد ہوا اور اسرائیل نے اسے فوری طور پر تسلیم کر لیا، لیکن الجزائر نے ایسا کرنے سے گریز کیا۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر الجزائر کا سفر ممکن نہیں۔ سن 1967 کی جنگ میں الجزائر نے اپنے مگ 21 طیارے اور فوجی مصر کی مدد کے لیے بھیجے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Zumapress/A. Widak
3. انڈونیشیا
انڈونیشیا اور اسرائیل کے مابین باقاعدہ سفارتی تعلقات نہیں ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی، سیاحتی اور سکیورٹی امور کے حوالے سے تعلقات موجود ہیں۔ ماضی میں دونوں ممالک کے سربراہان باہمی دورے بھی کر چکے ہیں۔ سن 2012 میں انڈونیشیا نے اسرائیل میں قونصل خانہ کھولنے کا اعلان بھی کیا تھا لیکن اب تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rante
4. ايران
اسرائیل کے قیام کے وقت ایران ترکی کے بعد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا دوسرا مسلم اکثریتی ملک تھا۔ تاہم سن 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی۔ ایران اسرائیل کو اب تسلیم نہیں کرتا اور مشرق وسطیٰ میں یہ دونوں ممالک بدترین حریف سمجھے جاتے ہیں۔
تصویر: khamenei.ir
5. برونائی
برونائی کا شمار بھی ان قریب دو درجن ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے اسرائیل کے قیام سے لے کر اب تک اسے تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے باہمی سفارتی تعلقات ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Rani
6. بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ جب تک آزاد فلسطینی ریاست نہیں بن جاتی تب تک ڈھاکہ حکومت اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔ اسرائیل نے بنگلہ دیش کی آزادی کی جنگ کی حمایت کی تھی اور اس کے قیام کے بعد اسے تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں اسرائیل کا شمار بھی ہوتا ہے۔
تصویر: bdnews24.com
7. بھوٹان
بھوٹان کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں اور نہ ہی وہ اسے تسلیم کرتا ہے۔ بھوٹان کے خارجہ تعلقات بطور ملک بھی کافی محدود ہیں اور وہ چین اور اسرائیل سمیت ان تمام ممالک کو تسلیم نہیں کرتا جو اقوام متحدہ کے رکن نہیں ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Mathema
8. پاکستان
پاکستان نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ پر یہ بھی درج ہے کہ یہ اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے کارآمد ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں پاکستان نے اسرائیل کے خلاف عسکری مدد روانہ کی تھی اور اسرائیل نے مبینہ طور پر پاکستانی جوہری منصوبہ روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔ پاکستان نے بھی دو ریاستی حل تک اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Soomro
9. جبوتی
جمہوریہ جبوتی عرب لیگ کا حصہ ہے اور اس کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ تاہم 50 برس قبل دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کر لیے تھے۔
تصویر: DW/G.T. Haile-Giorgis
10. سعودی عرب
سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ نہ تو باقاعدہ سفارتی تعلقات ہیں اور نہ ہی اب تک اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران تاہم دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری دکھائی دی ہے۔ سعودی شاہ عبداللہ نے سن 2002 میں ایک ہمہ جہت امن منصوبہ تجویز کیا لیکن تب اسرائیل نے اس کا جواب نہیں دیا تھا۔ سعودی عرب نے اسرائیل اور یو اے ای کے تازہ معاہدے کی حمایت یا مخالفت میں اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
ہمسایہ ممالک اسرائیل اور شام عملی طور پر اسرائیل کے قیام سے اب تک مسلسل حالت جنگ میں ہیں اور سفارتی تعلقات قائم نہیں ہو پائے۔ دونوں ممالک کے مابین تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔ علاوہ ازیں شام کے ایران اور حزب اللہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔ اسرائیل خود کو لاحق خطرات کا حوالہ دیتے ہوئے شام میں کئی ٹھکانوں کو نشانہ بناتا رہا ہے۔
شمالی کوریا نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے برعکس شمالی کوریا نے سن 1988 میں فلسطینی ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
13. صومالیہ
افریقی ملک صومایہ بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی دونوں کے باہمی سفارتی تعلقات وجود رکھتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/Y. Chiba
14. عراق
عراق نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد ہی عراق نے اسرائیل کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ عراقی کردوں نے تاہم اپنی علاقائی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔
تصویر: DW
15. عمان
عرب لیگ کے دیگر ممالک کی طرح عمان بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تاہم سن 1994 میں دونوں ممالک نے تجارتی تعلقات قائم کیے تھے جو سن 2000 تک برقرار رہے۔ دو برس قبل نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل وفد نے عمان کا دورہ کیا تھا۔ عمان نے اماراتی اسرائیلی معاہدے کی بھی حمایت کی ہے۔ اسرائیلی حکام نے امید ظاہر کی ہے کہ عمان بھی جلد ہی اسرائیل کے ساتھ ایسا معاہدہ کر لے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
16. قطر
قطر اور اسرائیل کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اب تک اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔ لیکن دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات رہے ہیں۔ اسرائیلی پاسپورٹ پر قطر کا سفر نہیں کیا جا سکتا لیکن سن 2022 کے فٹبال ورلڈ کپ کے لیے اسرائیلی شہری بھی قطر جا سکیں گے۔ اماراتی فیصلے کے بارے میں قطر نے اب تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture alliance/robertharding/F. Fell
17. کوموروس
بحر ہند میں چھوٹا سا افریقی ملک جزر القمر نے بھی ابھی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا۔ عرب لیگ کے رکن اس ملک کے تل ابیب کے ساتھ سفارتی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
18. کویت
کویت نے بھی اب تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے مابین تاریخی امن معاہدے کے بارے میں کویت نے دیگر خلیجی ریاستوں کے برعکس ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Gambrell
19. لبنان
اسرائیل کے پڑوسی ملک لبنان بھی اسے تسلیم نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ لبنان میں ایرانی حمایت یافتہ تنظیم حزب اللہ اور اسرائیل کے مابین مسلسل جھڑپوں کے باعث اسرائیل لبنان کو دشمن ملک سمجھتا ہے۔ اسرائیل نے سن 1982 اور سن 2005 میں بھی لبنان پر حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. A. Akman
20. لیبیا
لیبیا اور اسرائیل کے مابین بھی اب تک سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کو تسلیم کیا ہے۔
21. ملائیشیا
ملائیشیا نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی ان کے سفارتی تعلقات ہیں۔ علاوہ ازیں ملائیشیا میں نہ تو اسرائیلی سفری دستاویزت کارآمد ہیں اور نہ ہی ملائیشین پاسپورٹ پر اسرائیل کا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین تجارتی تعلقات قائم ہیں۔
تصویر: Imago/Zumapress
22. یمن
یمن نے بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا اور نہ ہی سفارتی تعلقات قائم کیے۔ دونوں ممالک کے مابین تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور یمن میں اسرائیلی پاسپورٹ پر، یا کسی ایسے پاسپورٹ پر جس پر اسرائیلی ویزا لگا ہو، سفر نہیں کیا جا سکتا۔
تصویر: Reuters/F. Salman
22 تصاویر1 | 22
مغربی صحارا کا تنازعہ
مراکش اور اسرائیل کے درمیان معاہدے کے اعلان کے فوراً بعد صدر ٹرمپ نے ایک اور ٹوئٹ کیا: ”مراکش نے امریکا کو 1777میں تسلیم کیا تھا۔ اور یہ بات مناسب ہے کہ ہم مغربی صحارا پر اس کی خودمختاری کو تسلیم کررہے ہیں۔‘
مغربی صحارا کا یہ متنازعہ علاقہ ماضی میں ہسپانوی نو آبادیات کا حصہ رہا ہے۔ اس کے بیشتر علاقے پر مراکش کا کنٹرول ہے تاہم الجیریا بھی اس پر اپنا دعو ی کرتا ہے۔
وہائٹ ہاوس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ”صدر نے مغربی صحارا میں مراکش کی خود مختاری کو بھی تسلیم کرلیا ہے۔ صدر نے مراکش کو اپنے تعاون اور مغربی صحارا میں حقیقت پر مبنی خود مختاری کی تجاویز کی حمایت کا یقین دلایا جو پائیدار ہوگی۔"
مغربی صحارا کی آزادی کے لیے جنگ میں مصروف الجیریائی حکومت کی حمایت یافتہ تنظیم پولیساریو فرنٹ نے امریکا کے فیصلے کو”انتہائی افسوسناک" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ فیصلہ افسوس ناک لیکن حیران کن نہیں ہے۔‘
اقو ام متحدہ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس خطے کے حوالے سے اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔
سن 1991میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں اس شرط پر یہاں جنگ بندی ہوئی تھی کہ 1992میں آزادی کے حوالے سے ریفرینڈم کرایا جائے گا۔ مراکش نے تاہم اس میں رخنہ ڈال دیا۔ اقو ام متحدہ کی قیام امن فورس اس خطے میں تعینات ہے۔
ج ا/ ص ز (ڈی پی اے، روئٹرز)
اسرائیل کے خلاف غزہ کے فلسطینیوں کے احتجاج میں شدت
اس علاقے میں تنازعے کی تاریخ صدیوں پرانی ہے۔ رواں برس کے دوران غزہ کی سرحد پر اسرائیل اور فلسطینی عوام کے درمیان کشیدگی انتہائی شدید ہو گئی ہے۔
تصویر: Reuters/A. Cohen
فروری سن 2018: سرحد پر بم
رواں برس سترہ فروری کو اسرائیل کی سرحد پر ایک بارودی ڈیوائس کے پھٹنے سے چار اسرائیلی فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کے مختلف مقامات پر فضائی حملے کیے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اقوام متحدہ کی امدادی سپلائی
غزہ پٹی کی نصف سے زائد آبادی کا انحصار اقوام متحدہ کے خصوصی امدادی ادارے UNRWA کی جانب سے ضروریات زندگی کے سامان کی فراہمی اور امداد پر ہے۔ اس ادارے نے پچیس فروری کو عالمی برادری کو متنبہ کیا کہ غزہ میں قحط کی صورت حال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ امریکا نے فلسطینی لیڈروں کے اسرائیل سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے دباؤ بڑھانے کی خاطر امداد کو روک رکھا ہے۔ ادارے کے مطابق وہ جولائی تک امداد فراہم کر سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/S. Jarar'Ah
فلسطینی وزیراعظم پر حملہ
فلسطینی علاقے ویسٹ بینک کے الفتح سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم رامی حمداللہ جب تیرہ مارچ کو غزہ پہنچے، تو ان کے قافلے کو ایک بم سے نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اس کی ذمہ داری حماس پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وزیراعظم کو مناسب سکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی تھی۔ رامی حمداللہ اس حملے میں محفوظ رہے تھے۔
تصویر: Reuters/I. Abu Mustafa
اسرائیل کی فضائی حملے
غزہ پٹی کی اسرائیلی سرحد پر ایک اور بارودی ڈیوائس ضرور پھٹی لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اسرائیل نے اٹھارہ مارچ کو غزہ پٹی پر فضائی حملے کیے اور حماس کی تیار کردہ ایک سرنگ کو تباہ کر دیا۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
سرحد پر مظاہرے کرنے کا اعلان
غزہ پٹی کے فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر پرامن مظاہرے کرنے کا اعلان کیا۔ اس مظاہرے کا مقصد اسرائیل کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں واپسی بتائی گئی۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے واپسی کے حق کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
تیس مارچ سن 2018 کو تیس ہزار فلسطینی سن 1976 کے احتجاجی سلسلے کے تحت اسرائیلی سرحد کے قریب مظاہرے کے لیے پہنچے۔ بعض مظاہرین نے سرحد عبور کرنے کی کوشش کی اور یہ کوشش خاصی جان لیوا رہی۔ کم از کم سولہ فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے۔ کئی زخمی بعد میں جانبر نہیں ہو سکے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hams
سرحد پر مظاہرے کا دوسرا راؤنڈ
چھ اپریل کو ایک مرتبہ پھر فلسطینیوں نے اسرائیلی سرحد پر احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے دوران بھی اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔ ایک صحافی کے علاوہ نو فلسطینی ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/I. A. Mustafa
انہیں نقصان اٹھانا پڑے گا، نیتن یاہو
اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ کے قریب اسرائیلی قصبے سدورت میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پالیسی واضح ہے کہ جو کوئی حملے کی نیت سے آگے بڑھے، اُس پر جوابی وار کیا جائے گا۔ نیتن یاہو نے مزید کہا کہ غزہ سرحد عبور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کرنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Tibbon
اسرائیل کے خلاف مظاہروں کا تیسرا دور
مظاہروں کے تیسرے دور یعنی 13 اپریل کا آغاز منتظمین کے اس اعلان سے شروع ہوا کہ مظاہرین سرحد کے قریب احتجاج کے مقام پر رکھے اسرائیلی پرچم کے اپنے قدموں تلے روندتے ہوئے گزریں۔
تصویر: Reuters/M. Salem
مظاہرین زخمی
13 اپریل کے مظاہرے کے دوران زخمی ہونے والے ایک شخص کو اٹھانے کے لیے فلسطینی دوڑ رہے ہیں۔ سرحدی محافظوں پر پتھر پھینکنے کے رد عمل میں اسرائیلی فوجیوں نے مظاہرین پر فائرنگ کی۔ 30 مارچ سے اب تک کم از کم 33 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہوئے۔