مراکش اور الجزائر کے مہاجرین کی تیز تر ملک بدری کا منصوبہ
17 جنوری 2016خبررساں ادارے روئٹرز کی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق جرمن اخبار ’وَیلٹ ام زونٹاگ‘ نے اپنی آج کی اشاعت میں لکھا ہے کہ اس مقصد کے لیے شمالی افریقی ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کو ’محفوظ ممالک‘ کے تارکین وطن قرار دے دیا جائے گا۔
اس طرح انہیں دیگر حقدار مہاجرین سے علیحدہ اور تارکین وطن کے ایسے مخصوص مراکز میں رکھا جا سکے گا، جہاں سے غیر ملکیوں کو ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔
’وَیلٹ ام زونٹاگ‘ نے لکھا ہے کہ اس ضمن میں انگیلا میرکل کی جماعت سی ڈی یو اور اس کی اتحادی پارٹی سی ایس یو میں اتفاق رائے ہو گیا ہے۔
انگیلا میرکل اور سی ایس یو کے سربراہ ہورسٹ زےہوفر نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ ملک میں مہاجرین کی بڑی تعداد کے پیش نظر شمالی افریقی ملکوں کے تارکین وطن کی جبری واپسی کے لیے ان ریاستوں کے ’محفوظ ممالک‘ کی فہرست میں شامل کیے جانے کا انتظار نہیں کیا جائے گا۔
یورپ کو درپیش مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران گیارہ لاکھ سے زائد تارکین وطن پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچ چکے ہیں۔ اگرچہ ایسے غیر ملکیوں کی اکثریت کا تعلق شام، عراق اور افغانستان سے ہے، تاہم پاکستان، الجزائر اور مراکش کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد بھی جرمنی پہنچ چکی ہے۔
جرمنی کا موقف یہ ہے کہ الجزائر اور مراکش کے شہریوں کو بالعموم کسی جنگ یا سیاسی انتقام کا سامنا نہیں ہے، اسی لیے ان ریاستوں کے تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
تکنیکی طور پر تاہم الجزائر اور مراکش ابھی تک برلن حکومت کی محفوظ سمجھے جانے والے ممالک کی فہرست میں شامل نہیں ہیں۔
سی ڈی یو کے سیاست دانوں کا مطالبہ ہے کہ وفاقی حکومت اس فہرست کا از سرِ نو جائزہ لے کر الجزائر اور مراکش کے علاوہ تیونس کو بھی اس میں شامل کرے۔ یوں آئندہ ان تینوں ممالک کے شہریوں کی فی الفور ملک بدری یقینی ہو جائے گی۔
جرمن پولیس اور متاثرہ خواتین کے مطابق سالِ نو کے موقع پر کولون میں خواتین پر جنسی حملوں میں ملوث ملزمان میں سے اکثر کا تعلق عرب اور شمالی افریقی ممالک سے تھا۔ اس واقعے کے بعد جرمن حکومت کو جرائم میں ملوث تارکین وطن کی ملک بدری کے مطالبے کی صورت میں شدید دباؤ کا سامنا ہے۔