امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مراکش کی جانب سے فیفا ورلڈ کپ 2026 کی میزبانی کے لیے امیدواری پر اپنی ایک ٹویٹ میں بالواسطہ تنقید کی ہے۔ مراکشی باشندے اس ٹویٹ کو تضحیک آمیز قرار دے کر شدید غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری کردہ پیغامات ماضی میں بھی کئی افراد اور ممالک کے لیے غصے کا سبب بنتے رہے ہیں۔ ایسی ہی ایک ٹویٹ نے اس مرتبہ مراکش کے شہریوں میں بھی غصے کی لہر پیدا کر دی ہے اور وہ صدر ٹرمپ کے اس پیغام کو تضحیک آمیز قرار دے رہے ہیں۔
اس مرتبہ امریکی صدر کی ٹویٹ کھیلوں کی دنیا سے متعلق تھی اور اس میں انہوں نے مراکش کو اس بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ امریکا کی طرح وہ بھی سن 2026 کے فیفا فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کا امیدوار ہے، اور یہ بات ٹرمپ کو بہت ناگوار گزری ہے۔
اسی ناگواری کا اظہار صدر ٹرمپ نے اپنی ایک ٹویٹ میں کیا اور ان کے الفاظ کچھ یوں تھے، ’’امریکا کینیڈا اور میکسیکو مشترکہ طور پر سن 2026 کے ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے امیدوار ہیں۔ یہ شرم کی بات ہو گی کہ وہ ممالک، جن کی امریکا مدد کرتا ہے، وہ اس امریکی امیدواری کے خلاف لابی کریں۔ ہم ایسے ممالک کی حمایت اور مدد کیوں کرتے رہیں، جو اقوام متحدہ سمیت مختلف پلیٹ فارمز پر ہماری حمایت نہیں کرتے؟‘‘
امریکی صدر کی اس بالواسطہ لیکن بہت واضح دھمکی پر مراکش کے عوام اور رہنما شدید نالاں ہیں۔ مراکش کی سوشلسٹ پارٹی کی جنرل سیکرٹری نبیلہ منیب کا کہنا تھا، ’’امریکی صدر کا رویہ ایسا ہے جیسا ہم پہلے ہی سے سامراجی طاقتوں کی وجہ سے جانتے ہیں۔ ہم اس کا اظہار امریکا اور جنوبی نصف کرہ ارض کے ممالک کے مابین تعلقات میں دیکھتے ہیں۔‘‘
ٹرمپ کے ایسے نو ساتھی جو برطرف یا مستعفی ہو گئے
وائٹ ہاؤس کی کمیونیکیشن ڈائریکٹر ہوپ ہیکس نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے کتنے اعلی عہدیدار برطرف یا مستعفی ہو چکے ہیں، یہ ان تصاویر کے ذریعے جانیے۔
انتیس سالہ سابق ماڈل ہوپ ہیکس امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتہائی قریبی اور پرانی ساتھی قرار دی جاتی ہیں۔ سن دو ہزار پندرہ میں ٹرمپ کی صدارتی مہم کی ترجمان ہوپ نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داریاں بڑے احسن طریقے سے نبھائی ہیں۔ امریکی صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت پر ان سے پوچھ گچھ بھی کی گئی تھی۔
تصویر: Reuters/C. Barria
اسٹیو بینن
سن دو ہزار سولہ کے انتخابات میں ٹرمپ کی فتح اور اُن کے قوم پرستی اور عالمگیریت کے خلاف ایجنڈے کے پس پشت کارفرما قوت اسٹیو بینن ہی تھے۔ گزشتہ ہفتے امریکی ریاست ورجینیا میں شارلٹس ویل کے علاقے میں ہونے والے سفید فام قوم پرستوں کے مظاہرے میں ہوئی پُر تشدد جھڑپوں کے تناظر میں ٹرمپ کو ریپبلکنز کی جانب سے سخت تنقید کے ساتھ بینن کی برطرفی کے مطالبے کا سامنا بھی تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Brandon
انٹونی سکاراموچی
’مُوچ‘ کی عرفیت سے بلائے جانے والے 53 سالی انٹونی سکاراموچی وائٹ ہاؤس میں محض دس روز ہی میڈیا چیف رہے۔ بہت عرصے خالی رہنے والی اس آسامی کو نیو یارک کے اس شہری نے بخوشی قبول کیا لیکن اپنے رفقائے کار کے ساتھ نامناسب زبان کے استعمال کے باعث ٹرمپ اُن سے خوش نہیں تھے۔ سکاراموچی کو چیف آف سٹاف جان کیلی نے برطرف کیا تھا۔
امریکی محکمہ برائے اخلاقیات کے سابق سربراہ والٹر شاؤب نے رواں برس جولائی میں وائٹ ہاؤس سے ٹرمپ کے پیچیدہ مالیاتی معاملات پر اختلاف رائے کے بعد اپنے منصب سے استعفی دے دیا تھا۔ شاؤب ٹرمپ کے منصب صدارت سنبھالنے کے بعد اُن کے ذاتی کاروبار کے حوالے سے بیانات کے کڑے ناقد رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J.S. Applewhite
رائنس پریبس
صدر ٹرمپ نے اقتدار میں آنے کے فوراﹰ بعد رپبلکن رائنس پریبس کو وائٹ ہاؤس کا چیف آف اسٹاف مقرر کیا تھا۔ تاہم تقرری کے محض چھ ماہ کے اندر ہی اس وقت کے مواصلات کے سربراہ انٹونی سکاراموچی سے مخالفت مول لینے کے سبب اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
تصویر: Reuters/M. Segar
شین اسپائسر
وائٹ ہاؤس کے سابق پریس سیکرٹری شین اسپائسر کے ٹرمپ اور میڈیا سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ تاہم اُنہوں نے ٹرمپ کی جانب سے انٹونی سکاراموچی کی بطور ڈائرکٹر مواصلات تعیناتی کے بعد احتجاجاﹰ استعفیٰ دے دیا تھا۔ اسپائسر اس تقرری سے خوش نہیں تھے۔
تصویر: Reuters/K.Lamarque
مائیکل ڈیوبک
وائٹ ہاؤس پریس سیکرٹری مائیکل ڈیوبک کو اُن کے امریکی انتخابات میں روس کے ملوث ہونے کے الزامات کو صحیح طور پر ہینڈل نہ کرنے کے سبب ان کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Walsh
جیمز کومی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے سربراہ جیمز کومی کو بھی برطرف کر دیا تھا۔ کومی پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ہلیری کلنٹن کی ای میلز کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کی تھیں۔ تاہم ٹرمپ کے ناقدین کو یقین ہے کہ برطرفی کی اصل وجہ ایف بی آئی کا ٹرمپ کی انتخابی مہم میں روس کے ملوث ہونے کے تانے بانے تلاش کرنا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. S. Applewhite
مائیکل فلن
قومی سلامتی کے لیے ٹرمپ کے مشیر مائیکل فلن کو رواں برس فروری میں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا تھا۔ فلن نے استعفے سے قبل بتایا تھا کہ اُنہوں نے صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل روسی سفیر سے روس پر امریکی پابندیوں کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ فلن پر اس حوالے سے نائب امریکی صدر مائیک پنس کو گمراہ کرنے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/C. Barria
9 تصاویر1 | 9
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے نبیلہ منیب کا مزید کہنا تھا، ’’ٹرمپ ڈرانے اور دھمکانے کا لہجہ اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن ہم مراکشی ’جنگل کے قانون‘ سے خوفزدہ نہیں ہوں گے بلکہ ہم انسانیت، بھائی چارے اور انصاف پر مبنی عالمی نظام کے لیے کوشاں رہیں گے۔‘‘
مراکشی اداکارہ لطیفہ احرار بھی ٹرمپ کے ان بیانات پر شدید غصے میں دکھائی دیں۔ ان کا کہنا تھا، ’’یہ ٹویٹ نفسیاتی جنگ کا حصہ ہے اور یہ ہمیں امریکی ’کاؤ بوائے‘ کے سوچنے کے انداز کی یاد دلاتی ہے۔‘‘
نہ صرف مراکشی شہری بلکہ سوشل میڈیا پر امریکا سمیت کئی دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے صارفین بھی امریکی صدر کے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ کئی صارفین کا کہنا تھا کہ ورلڈ کپ کی میزبانی کی کوشش ہر ملک کا حق ہے۔ علاوہ ازیں کئی صارفین ایسے بھی تھے جنہوں نے ٹرمپ کے اس پیغام کو نسل پرستی سے تعبیر کیا۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ امریکا نے فیفا ورلڈ کپ کی آخری مرتبہ میزبانی سن 1994 میں کی تھی جب کہ مراکش اب تک فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کبھی بھی نہیں کر پایا۔ مراکش اس سے پہلے بھی چار مرتبہ فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے درخواست دے چکا ہے۔ فیفا کی طرف سے سن 2026 کے عالمی کپ مقابلوں کی میزبانی سے متعلق اعلان رواں برس 13 جون کو ماسکو میں کیا جائے گا۔
فٹ بال کے اکیسویں عالمی کپ کی میزبانی اس برس روس کے سپرد ہے جہاں 14 جون سے 15 جولائی تک دنیا کی بہترین ٹیموں کے درمیان میچز کھیلے جائیں گے۔ فیفا ورلڈ کپ کے حوالے سے چند دلچسپ معلومات جانیے اس پکچر گیلری سے۔
اس برس بھی عالمی کپ حاصل کرنے کے لیے 32 ٹیمیں مد مقابل آئیں گی۔ ان میں آئس لینڈ اور پاناما کی ٹیمیں پہلی بار کولیفائی کرتے ہوئے حصہ لے رہی ہیں۔ سن 2026 میں فٹبال ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی ٹیموں کی تعداد 48 کر دی جائے گی۔
جرمنی ورلڈ کپ کے گزشتہ تین ٹورنامنٹس میں سب سے زیادہ گول کرنے والی ٹیم رہی ہے۔ جرمن فٹ بال ٹیم 2014ء میں اٹھارہ، 2010ء میں سولہ اور 2006ء میں چودہ گولز کے ساتھ سرفہرست رہی۔
تصویر: Imago/ActionPictures/P. Schatz
دنیا کی نصف آبادی کی دلچسپی
اعداد و شمار اکھٹا کرنے والے ایک ادارے کے مطابق فٹ بال کے اس برس عالمی کپ کو صرف ٹی وی پر ہی دیکھنے والوں کی تعداد 3.2 بلین ہو گی، جو دنیا کی تقریباﹰ نصف آبادی کے برابر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ایران کے لیے سنگ میل
ایران اس برس پہلی بار متواتر دوسری مرتبہ عالمی کپ کھیلے گا۔
تصویر: Mehr
سب سے چھوٹا ملک
آئس لینڈ اس ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنے والا دنیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے۔
تصویر: picture-alliance/Back Page Images
دو براعظموں میں میچز
یہ پہلی بار ہو گا جب فٹ بال ورلڈ کپ کے میچ دو بر اعظموں، یورپ اور ایشیا میں کھیلے جائیں گے۔ اب کے عالمی مقابلوں میں سب سے کم درجہ بندی روس (65) اور سعودی عرب ( 63) کی ہے۔
تصویر: Reuters/D. Staples
64 میچز
ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس ٹورنمنٹ میں کُل 64 میچ کھیلے جائیں گے جیسے دیکھنے کے لیے اندازاﹰ دس لاکھ سے زائد غیر ملکی روس کا رخ کریں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Antonov
جیتنے والی ٹیم کو انعام
اس برس عالمی چیمپئین کا تاج سر پر سجانے والی ٹیم کو 3.8 ملین ڈالر کی انعامی رقم دی جائے گی۔ دوسرے نمبر پر آنے والی ٹیم کو 2.8 ملین ڈالر کی انعامی رقم کی حقدار قرار پائے گی۔