1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آفاتمراکش

مراکش میں طاقت ور زلزلہ، دو ہزار سے زائد ہلاکتیں

10 ستمبر 2023

مراکش میں حالیہ زلزلے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کا کام بدستور جاری ہے، جب کہ اس زلزلے میں ہلاکتوں کی تعداد دو ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔

Marokko | Hunderte Tote bei schwerem Erdbeben
تصویر: Saouri Aissa/Xinhua/IMAGO

مراکش کے اسی نام کے شہر سے ہفتہ دس ستمبر کی صبح موصولہ رپورٹوں کے مطابق زلزلے کے جھٹکے اتنے شدید تھے کہ مختلف شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں عام شہری انتہائی خوف کے عالم میں نیند سے جاگ کر اپنے گھروں سے باہر نکل آئے۔

ترکی: زلزلے کے بعد 'پراسرار' بچی اپنی ماں سے مل گئی

مقامی وقت کے مطابق یہ زلزلہ جمعے کی رات 11 بج کر 11 منٹ پر آیا اور ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 6.8 ریکارڈ کی گئی۔

امریکی جیولوجیکل سروے کے ماہرین کے مطابق شمالی افریقہ کی اس عرب ریاست کا شہر مراکش ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کی ایک پسندیدہ منزل ہے اور اس زلزلے نے جس علاقے کو سب سے زیادہ متاثر کیا، وہ مراکش شہر سے جنوب مغرب کی طرف تقریباﹰ 72 کلومیٹر (45 میل) کے فاصلے پر واقع ہے۔

مقامی وقت کے مطابق یہ زلزلہ رات سوا گیارہ بجے کے قریب آیاتصویر: Al Maghribi Al Youm via REUTERS

ساحلی علاقوں میں بھی جھٹکے

اس زلزلے کے جھٹکے صرف مراکش اور اس کے گرد و نواح میں ہی نہیں بلکہ ملک کے دور دراز ساحلی شہروں اور علاقوں تک میں بھی محسوس کیے گئے۔ ان شہروں میں رباط، کاسا بلانکا اور الصویرہ بھی شامل ہیں۔

مراکش شہر کے ایک 33 سالہ رہائشی عبدالحق العمرانی نے فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف ہی کو بتایا، ''زیادہ تر افراد نیند میں تھے۔ اچانک انتہائی طاقت ور جھٹکے لگنے لگے اور ہمیں اندازہ ہو گیا کہ یہ زلزلہ تھا۔‘‘

زلزلے سے ترک نژاد جرمنوں کے ریٹائرمنٹ پلان کھٹائی میں

العمرانی کے مطابق، ''میں باہر نکلا اور میں  نے دیکھا کہ عمارتیں ہل رہی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ اور بھی بہت سے شہری اپنے گھروں سے باہر کھلی جگہوں پر جمع ہو چکے تھے۔ ہر کوئی خوف زدہ تھا۔ بچے رو رہے تھے اور زلزلے کے نتیجے میں کچھ دیر کے لیے بجلی کا نظام اور ٹیلی فون رابطے بھی منقطع ہو گئے تھے۔‘‘

زلزلے کے بعد ایک تباہ شدہ عمارت کے متاثرہ رہائشیتصویر: Al Maghribi Al Youm via REUTERS

ہلاکتوں کی مصدقہ تعداد

مراکش کی وزارت داخلہ نے ہفتہ 10 ستمبر کی صبح بتایا کہ زلزلے کے نتیجے میں بہت سی عمارات تباہ ہو گئیں اور ہلاکتوں کی مصدقہ تعداد بھی مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ حکام نے بتایا کہ مقامی وقت کے مطابق آج ہفتے کی صبح تک 632 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی تھی۔ بعد دوپہر تک یہ تعداد بڑھ کر کم از کم 820 ہو چکی تھی۔

سرکاری ذرائع کے مطابق اس زلزلے نے مراکش کے جن صوبوں اور شہروں کو سب سے زیادہ متاثر کیا، ان میں الحاوز، تارودانت، ورزازات، شیشاوہ، ازیلال اور یوسفیہ کے علاوہ مراکش، اکادیر اور کاسا بلانکا بھی شامل ہیں۔

پاکستان اور افغانستان میں زلزلے سے متعدد افراد ہلاک اور زخمی

ہنگامی امدادی کارروائیوں کے ملکی محکمے کے اعلیٰ حکام نے بتایا کہ زلزلے کے باعث آخری خبریں آنے تک 329 افراد کے زخمی ہونے کی بھی تصدیق ہو چکی تھی، جن میں سے 51 کی حالت نازک تھی۔

جھٹکے اتنے شدید تھے کہ ہزاروں کی تعداد میں عام شہری انتہائی خوف کے عالم میں اپنے گھروں سے باہر نکل آئےتصویر: Abdelhak Balhaki/REUTERS

بین الاقوامی سطح پر افسوس اور یکجہتی کا اظہار

مراکش میں اس طاقت ور زلزلے کے باعث سینکڑوں کی تعداد میں انسانی ہلاکتوں اور بے شمار عمارات کی تباہی کے بعد بیرونی دنیا کے بہت سے ممالک اور ان کے رہنماؤں نے مراکش کے ساتھ افسوس اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے مدد کی پیشکش بھی کی ہے۔

ترکی اور شام میں تباہ کن زلزلہ، ایک ماہ بعد صورتحال کیسی ہے؟

ملکی میڈیا نے بتایا کہ یہ زلزلہ مراکش میں آج تک آنے والا شدید ترین زلزلہ تھا۔

جرمنی کے چانسلر اولاف شولس اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی مراکش کی حکومت اور عوام کے ساتھ اس ہلاکت خیز قدرتی آفت کے بعد یکجہتی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ انہیں اتنی زیادہ انسانی ہلاکتوں پر گہرا دکھ ہوا ہے۔

قدرتی آفات سے ہونے والے نقصان کا اندازہ کیسے لگایا جاتا ہے؟

مراکش کے ہمسایہ ملک الجزائر میں شہری دفاع کے محکمے نے تصدیق کی ہے کہ اس زلزلے کے جھٹکے الجزائر میں بھی محسوس کیے گئے، تاہم وہاں اس وجہ سے انسانی ہلاکتیں اور مادی نقصانات دونوں بہت کم ہوئے۔

مراکش میں گزشتہ تباہ کن زلزلہ 2004ء میں آیا تھا، جس کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6.7 تھی اور جو 926 انسانی اموات کا سبب بنا تھا۔

م م / ش ر (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)

شام میں زلزلے کی تباہی کے سبب لاکھوں بچے اسکول جانے سے محروم

02:05

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں