پاپائے روم پھر ایک اسلامی ملک میں ہیں۔ مراکش میں مسلم رہنماؤں سے ان کی ملاقات ایک اور سنگ میل ہو گی۔ یورپ کے باہر سے یورپی باشندوں سے مخاطب ہوتے ہوئے پوپ ان سے تارکین وطن کے بارے میں زیادہ کھلے پن کا مطالبہ بھی کریں گے۔
اشتہار
پاپائے روم کے اس دورے کا تعلق ایک بار پھر ایک مذہب کے طور پر اسلام سے ہے۔ متحدہ عرب امارات کے تاریخی دورے کے آٹھ ہفتے بعد کلیسائے روم کے اعلیٰ ترین رہنما کے اس دورے کی منزل شمالی افریقی مسلم بادشاہت مراکش ہے۔ خلیج کے علاقے کی بہت امیر عرب ریاستوں کے برعکس مراکش ایک مختلف سماجی حقیقت کی عکاسی کرتا ہے اور پاپائے روم بھی اسی کوشش میں ہیں کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کو بڑی قربت سے اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر رہنا چاہیے۔
مراکش میں سرکاری مذہب اسلام ہے اور ننانوے فیصد آبادی مسلمان ہے۔ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں قائم ’سیبیڈو‘ (مسیحی مسلم مکالمت اور دستاویزی ریکارڈ کا مرکز) کے سربراہ ٹیمو گیُوزل منصور کے مطابق مراکش کی آبادی اسلام کے مالکی مسلک کی پیروکار ہے، جو ایک ’قدامت پسند لیکن باہمی برداشت کا مظاہرہ کرنے والا مسلک‘ ہے۔ مراکش میں دیگر سنی اکثریتی مسلم ممالک کے برعکس ’ایک عوامی اسلام‘ کا تصور زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مسلم مذہبی معاملات میں حدود و قیود کا تعین بادشاہ کرتا ہے، جو صرف دنیاوی حکمران ہی نہیں بلکہ اعلیٰ ترین مذہبی قائد بھی ہوتا ہے۔
مراکش کا دورہ کرنے والے دوسرے پوپ
مراکش کے شاہی خاندان کے مطابق اس کا سلسلہ نسلی طور پر براہ راست پیغمبر اسلام سے ملتا ہے اور یہ شاہی گھرانہ مذہبی کھلے پن کا بڑا حامی بھی ہے۔ یہ بات 1985ء میں موجودہ بادشاہ کے والد حسن ثانی نے، جو 1961ء سے لے کر 1999ء تک حکمران رہے تھے، اس وقت ثابت کر دی تھی جب تقریباﹰ چونتیس برس قبل اگست کے مہینے میں انہوں نے پاپائے روم جان پال دوئم کی میزبانی کی تھی۔ 1978ء سے لے کر 2005ء تک پوپ کے عہدے پر فائز رہنے والے جان پال دوئم کلیسائے روم کے وہ اولین سربراہ تھے، جنہوں نے مراکش کا دورہ کیا تھا۔
پوپ جان پال دوئم نے مراکش کے اپنے دورے کے دوران اس وقت کے بادشاہ حسن ثانی کی دعوت پر کاسابلانکا میں 80 ہزار حاضرین کے ایک اجتماع سے خطاب بھی کیا تھا، جن میں بہت بڑی اکثریت مسلم نوجوانوں کی تھی۔ یہ مذاہب کے درمیان باہمی احترام اور کھلے پن کا اپنی نوعیت کا اولین مظاہرہ تھا، جس کی پہلے کوئی مثال موجود ہی نہیں تھی۔ تب اپنے خطاب میں جان پال دوئم نے قرآن سے بھی حوالے دیے تھے اور کہا تھا کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے مابین مکالمت کی اشد ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
پوپ فرانسس کی رباط میں موجودگی
اپنے اولین دورہ مراکش کے دوران پوپ فرانسس ملکی دارالحکومت رباط میں 27 گھنٹے قیام کریں گے اور اس دوران ان کی توجہ اس بات پر ہو گی کہ دہشت گردی کے خلاف بین المذاہبی مکالمت کی ضرورت آج اتنی زیادہ ہے جنتی پہلے کبھی نہیں تھی۔ یہ بات اس لیے بھی اہم ہے کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران اسپین، جرمنی اور دیگر وسطی یورپی ممالک میں شدت پسند مسلم نوجوانوں نے جتنے بھی دہشت گردانہ حملے کیے، ان کی بہت بڑی اکثریت کا تعلق یا تو مراکش سے تھا یا وہ مراکشی نژاد یورپی شہری تھے۔
اپنے ملک کے نوجوانوں میں پائے جانے والے عدم برداشت اور تشدد کے مظہر اس رجحان کے خلاف مراکش کے موجودہ بادشاہ محمد ششم کافی عرصے سے بہت سرگرم ہیں اور وہ آئمہ کی تربیت میں بہتری کے علاوہ زیادہ برداشت والے اسلام کے بھی بڑے داعی ہیں۔
برقعہ، حجاب اور نقاب، اسلام میں پردے کے مختلف رنگ
مذہبِ اسلام میں مسلمان عورتوں کو اپنا جسم ڈھانپنے کا حکم دیا گیا ہے۔ لیکن ایک عورت کو کتنا پردہ کرنا چاہیے؟ اس حوالے سے مسلمان علماء مختلف رائے بھی رکھتے ہیں۔ چند مذہبی ملبوسات اس پکچر گیلری میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
حجاب
زیادہ تر علما کی رائے میں حجاب جو کہ عورت کے سر اور گردن کو ڈھکتا ہے، عورتوں کو پہننا لازمی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف ڈیزائنوں اور رنگوں کے حجاب پہننا پسند کرتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
چادر
کئی مسلم ممالک میں چادر خواتین کے لباس کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے صوبے خیبر پختونخواہ، اور کچھ دیگر علاقوں میں عورتیں گھروں سے باہر چادر پہنے بغیر نہیں نکلتیں۔ چادر زیادہ تر سفید یا کالے رنگ کی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
نقاب
نقاب عورت کے چہرے کو چھپا دیتا ہے اور صرف آنکھیں نظر آتی ہیں۔ کئی مرتبہ نقاب کا کپڑا اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ عورت کی چھاتی اور کمر بھی ڈھک جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
عبایا
عبایا ایک کھلی طرز کا لباس ہے جس میں پورا جسم ڈھکا ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان عورتیں مختلف رنگوں اور ڈیزائنوں کے عبایا زیب تن کرتی ہیں۔ مختلف موقعوں پر مختلف طرح کے عبایا پہنے جاتے ہیں۔ ان میں دیدہ زیب کڑھائی والے اور سادے، دونوں طرح کے عبایا شامل ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Haider
برقعہ
برقعہ بھی عبایا کی ہی ایک قسم ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے کچھ حصوں میں ’ٹوپی برقعہ‘ پہنا جاتا ہے جس میں عورتیں آنکھوں کے سامنے والے کپڑے میں کچھ سوراخوں سے ہی باہر دیکھ سکتی ہیں۔
تصویر: AP
کوئی پردہ نہیں
بہت سی مسلمان عورتیں اپنے سر کو حجاب سے نہیں ڈھکتیں اور جدید ملبوسات پہننا پسند کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
6 تصاویر1 | 6
پوپ فرانسس کے مسلم ممالک کے دورے
پاپائے روم فرانسس کے بارے میں یہ بات واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ وہ مسلم اکثریتی آبادی والے ممالک کے دوروں کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ وہ مراکش جانے سے پہلے ترکی، بوسنیا ہیرسے گووینا، اردن، فلسطینی علاقوں، آذربائیجان اور مصر کے دورے بھی کر چکے ہیں۔ ان کا کسی مسلم ریاست کا آخری دورہ قریب دو ماہ قبل متحدہ عرب امارات کا دورہ تھا۔
دنیا بھر کے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا کے طور پر پوپ فرانسس کی ایک مسلمہ سوچ یہ بھی ہے کہ مشرق اور مغرب کے درمیان خلیج کو مزید گہرا نہیں ہونا چاہیے۔ ان کا موقف ہے، ’’مشرق اور مغرب کے درمیان خلیج کو مزید گہرا ہونے سے بچاتے ہوئے، ہونا یہ چاہیے کہ تمام انسان ایک دوسرے کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کریں، آپس میں ایک دوسرے کو بہنوں اور بھائیوں کے طور پر دریافت کریں اور اسی سوچ کو عملی طور پر اپنے بہت ذمے دارانہ رویوں سے ثابت بھی کریں۔‘‘
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
’آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ سمندر میں ڈوبنے کے لیے؟‘
پوپ فرانسس کا مراکش کا یہ دورہ تقریباﹰ ڈیڑھ دن کا ہو گا۔ اس دوران وہ مہاجرت اور تارکین وطن کے موضوع پر بھی بات کریں گے۔ شمالی افریقہ میں آج مراکش اور لیبیا افریقی تارکین وطن کی یورپ کی طرف مہاجرت کی دہلیز بن چکے ہیں۔
آج تک مراکش سے یورپ کی طرف غیر محفوظ کشتیوں میں سمندری سفر کرنے والے لاتعداد تارکین وطن میں سے بہت سے سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایسا آخری بڑا سانحہ گزشتہ برس مئی میں اس وقت پیش آیا تھا، جب مراکش کے ساحل سے یورپی یونین تک کا سفر کرنے والے افراد کی ایک کشتی سمندر میں ڈوب جانے سے 45 تارکین وطن ہلاک ہو گئے تھے۔
ٹیمو گیُوزل منصور کے مطابق اس دورے کے دوران بھی پاپائے روم کا ہر اس انسان کے لیے، جو اس دنیا کو اپنی انفرادی کوششوں کے ساتھ تھوڑا سا بہتر اور تھوڑا سا زیادہ پرامن بنانا چاہتا ہے، پیغام یہی ہو گا کہ تارکین وطن سے متعلق ذمے داری میں ہر کسی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، اس وقت پاپائے روم کے میزبان ملک مراکش کو بھی اور پورے یورپ کو بھی۔
کرسٹوف اشٹراک / م م / ک م
سائنس کی اساس میں یہودی، مسیحی اور مسلمانوں کا کردار
ہماری عصری سائنس کی جڑیں یہودی، مسیحی اور مسلم محققین سے جا کر ملتی ہیں۔ قرون وسطٰی کے دور میں انہوں نے قدیمی مفکرین کی تحریروں کا ترجمہ کیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
پہلا سائنسدان
یونانی ماہر علوم ارسطو کی یہ تصویر 1457ء میں تخلیق کی گئی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دُور دُور سے لوگ قدیمی یونانی مفکرین اور فلسفیوں کی تعلیمات سے فیضیاب ہونے کی کوششوں میں رہتے تھے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند، سورج اور ستارے
علم فلکیات اور کائنات میں زمین کے ڈھانچے کی اہمیت قرون وسطی کے مفکرین کے لیے بھی اتنی ہی اہم تھی، جتنی آج کے سائنسدانوں کے لیے ہے۔ یہ تصویر 1392ء سے 1394ء کے درمیانی دور کی ہے۔ یہ دور کوپرنیکس کے عہد سے تقریباً سو برس قبل کا ہے، کوپرنیکس نے دریافت کیا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے اور ہمارا سیارہ کائنات کے درمیان میں نہیں ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم کی منتقلی
یوہانس گوٹن برگ نے اس کے تقریباً ساٹھ سال بعد پرنٹگ یا طباعت دریافت کی تھی۔ یہ ہاتھ سے لکھی گئی ایک کتاب ہے۔ یہودی، مسیحی اور مسلم ثقافتوں میں اس دوران ایک ایسی صنعت قائم ہوئی، جس کا کام قدیمی تحریروں کو ترجمہ کر کے اگلی نسلوں تک پہنچانا تھا۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دنیا بھر کے ماہر علوم
یہ 1370ء میں تخلیق کی جانے والی ایک کتاب کا عکس ہے۔ اس میں ستاروں سے بھرے ہوئے ایک آسمان کے نیچے بارہ افراد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے لباس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان بارہ ماہرین کا تعلق مختلف مذاہب اور ثقافتوں سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
ستاروں کی چال
1029ء میں ایک مسلم محقق نے ہسپانوی شہر تولیدو میں یہ اصطرلاب یا ایسٹرو لیب تیار کی تھی۔ اندلس کے مسلمانوں، جنہیں مورز بھی کہا جاتا ہے، نے جزیرہ نما آئبیریا ( موجودہ اسپین) کے ایک بڑے حصے پر سن 711 میں قبضہ کر لیا تھا۔ یہ لوگ 1492ء تک اس علاقے پر حکومت کرتے رہے تھے۔ سات سو سال حکومت کے بعد انہوں نے فن تعمیرات اور ادب کا بہترین خزانہ اپنے پیچھا چھوڑا ہے۔ ان میں غرناطہ میں قائم الحمرا کا قلعہ ہے۔
تصویر: Staatsbibliothek zu Berlin
مختلف ثقافتیں اور یکساں سوچ
یہ ایسٹرو لیب پہلے والے سے بہت مشابہت رکھتا ہے۔ تاہم یہ تصویر ایک ایسی کتاب سے لی گئی ہے، جس کی رونمائی اس کے چار سو سال بعد ویانا میں کی گئی تھی۔ اس کتاب کا تعلق علم فلکیات کی ایک دستاویز سے ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
چاند پر نظر
ہر زمانے کے ماہر فلکیات کو چاند میں دلچسپی رہی ہے۔ جرمن شہر لائپزگ میں 1505ء میں شائع ہونے والی ایک کتاب میں چاند کی مختلف منزلوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
دن، مہینے اور موسم
ہر مذہب میں کلینڈر یا تقویم اہمیت رکھتے ہیں۔ یہ سائنس کے طور پر علم فلکیات اور عقیدے کے نظام میں ایک پل کا کام کرتے ہیں۔ یہ 1415ء میں ویانا میں لکھی گئی عبرانی میں ایک مذہبی کتاب ہے۔ اس صفحے پر سال کا دوسرا دن درج ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
صحت مند غذا
مشہور یونانی فلسفی بقراط نے خوراک کے حوالے سے کچھ مشورے دیے تھے، ان کے یہ مشورے دسویں صدی کے لوگوں کے لیے بھی بہت دلچسپی کا باعث تھے۔ ان میں صحت مند خوراک کے بارے میں بتایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
تندرست
چودہویں صدی میں بقراط کی دانائی کی ایک اور مثال۔ یہ کتاب پیرس میں لکھی گئی تھی۔ اس صفحے پر دیگر تفصیلات کے علاوہ ایک مریض کا علاج کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
بچے کی پیدائش
یہ کتاب جنوبی فرانس میں چودہویں صدی کے وسط میں سرجنز اور مڈ وائفس کے لے لکھی گئی تھی۔ اس میں بچے کی پیدائش کے مختلف مراحل بیان کیے گئے ہیں۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
علم طاقت ہے
موجودہ ایران اور قدیمی فارس کے معروف طبیب اور فلسفی بو علی سینا اس تصویر میں ایک بادشاہ کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور ان کے اطراف ڈاکٹرز بیٹھ کر علاج معالجے کے موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ تصویر بو علی سینا کے انتقال کے چھ سو سال بعد یعنی پندرہویں صدی کی ہے۔
تصویر: Österreichische Nationalbibliothek
انسان اور جانور
اس کتاب میں ایک خطرناک ناگ کو پکڑنے کے طریقوں کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ کتاب موصل میں 1220ء میں عربی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اس کتاب میں مسیحی فلسفی اور سائنسی امور کے ماہر جوہانس فیلوپونس کے تحریروں کے حوالے بھی دیے گئے ہیں۔