مراکش کے دیہی علاقوں میں کنوارے پن کا ٹیسٹ کا رواج عام ہے۔ اب مراکش کی نوجوان خواتین نے اس رسم کے خلاف ایک مہم شروع کی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ ٹیسٹ ایک طرح کی جنسی زیادتی ہے اور پسماندگی کی ایک علامت ہے۔
اشتہار
مریم چوبیس برس کی ہے۔ اس طرح وہ اپنے ملک مراکش میں شادی کی عمر کو پہنچ چکی ہے۔ کچھ ہی عرصے میں اس کی شادی ہو جائے گی اور پھر کسی مرد کے ساتھ اس کا پہلی مرتبہ جنسی رابط ہو گا۔ مریم کو اس سے خوف آتا ہے۔ ایک نوجوان لڑکی ہونے کے ناطے مریم کو مجبور کیا گیا کہ وہ ایک دائی کے پاس جا کر اپنے کنوارے ہونے کی تصدیق کروائے۔
مریم کے مطابق یہ ٹیسٹ بربریت کی ایک مثال ہے، ’’انتہائی تکلیف دہ۔ اس سے ایک انسان اور ایک خاتون کے طور پر میرا وقار مجروع ہوا ہے۔‘‘
اس کے بقول مراکش کے دیہی علاقوں میں کنوارے پن کا ٹیسٹ ایک عام سی بات ہے۔ متعدد نوجوان لڑکیوں کو اس تکلیف دہ تجربے سے گزرنا پڑتا ہے۔ انکار پر تو زبردستی انہیں روایتی دائی کے پاس لایا جاتا ہے۔ ان دائیوں کے پاس اکثر طب کی تعلیم بھی نہیں ہوتی۔ اہم ترین بات صرف یہ ہے کہ متعلقہ لڑکی کے اہل خانہ کو دائی پر بھروسہ ہو۔
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کو قانونی سرپرست کی اجازت کے بغیر ہی ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جائیں گے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ اس اسلامی جمہوریہ میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کس طرح مثبت انداز میں بدل رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن 1955: لڑکیوں کے لیے پہلا اسکول
سعودی عرب میں لڑکیاں اس طرح کبھی اسکول نہیں جا سکتی تھیں، جیسا کہ ریاض میں لی گئی اس تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ سعودی عرب میں لڑکیوں کو اسکولوں میں داخلے کا موقع پہلی مرتبہ سن 1955 میں ملا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ سن 1970 میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن2001 : شناختی کارڈز کا اجراء
اکیسویں صدی کے آغاز پر سعودی عرب میں خواتین کے لیے پہلی مرتبہ شناختی کارڈز کا اجراء شروع کیا گیا۔ کسی مشکل صورت میں مثال کے طور پر وارثت یا جائیداد کے کسی تنازعے میں ان خواتین کے لیے یہ کارڈ ہی ایک واحد ایسا ثبوت تھا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کر سکیں۔ آغاز میں یہ کارڈز صرف مرد سرپرست کی اجازت سے ہی جاری کیے جاتے تھے۔ تاہم سن دو ہزار چھ میں اس پابندی کا خاتمہ بھی کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
سن2005 : جبری شادیوں کا اختتام ( کاغذی سطح پر)
سعودی عرب میں سن دو ہزار پانچ میں قانونی طور پر خواتین کی جبری شادیوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تاہم آج بھی اس اسلامی ریاست میں حقیقی طور پر کسی خاتون کا اپنی رضا مندی سے شادی کرنا ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔ اب بھی سعودی عرب میں شادیوں کے حتمی فیصلے لڑکیوں کے والد اور ان کے ہونے والے شوہر ہی کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A.Hilabi
سن 2009 : پہلی وزیر خاتون
سن دو ہزار نو میں شاہ عبداللہ نے ملک کی پہلی خاتون حکومتی وزیر کو چنا۔ تب نورہ بنت عبد الله الفايز کو نائب وزیر برائے تعلیم نسواں مقرر کیا گیا تھا۔
تصویر: Foreign and Commonwealth Office
سن 2012 : اولمپک مقابلوں کے لیے پہلی خاتون ایتھلیٹ
سعودی عرب نے سن دو ہزار بارہ میں پہلی مرتبہ اجازت دے دی کہ اولمپک مقابلوں کے لیے ملکی خواتین ایتھلیٹس کا دستہ بھی بھیجا جائے گا۔ اس دستے میں سارہ عطار بھی شامل تھیں، جنہوں نے اس برس لندن منعقدہ اولمپک مقابلوں میں ہیڈ اسکارف کے ساتھ آٹھ سو میٹر ریس میں حصہ لیا۔ تب ایسے خدشات تھے کہ اگر ریاض حکومت نے ملکی خواتین کو ان مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی تو سعودی عرب پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J.-G.Mabanglo
سن 2013: موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت
سعودی عرب کی حکومت نے سن دو ہزار تیرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کے لیے سیر و سیاحت کے کچھ مقامات کو مختص کیا گیا۔ خواتین باقاعدہ مکمل لباس کے ساتھ اپنے مرد رشتہ داروں کے ساتھ ہی وہاں جا کر اپنا یہ شوق پورا کر سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سن 2013: مشاورتی شوریٰ میں خواتین کی نمائندگی
فروری سن دو ہزار تیرہ میں شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی مشاورتی کونسل کے لیے تیس خواتین کا انتخاب کیا۔ تب اس قدامت پسند ملک میں خواتین کے لیے ان اہم عہدوں پر فائز ہونے کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: REUTERS/Saudi TV/Handout
سن 2015: ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق
سعودی عرب میں سن دو ہزار پندرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ملی۔ اسی برس اس ملک میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں خواتین پہلی مرتبہ الیکشن میں حصے لینے کی بھی اہل قرار پائیں۔ نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک تھا، جس نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا، یہ بات ہے سن 1893 کی۔ جرمنی میں خواتین کو ووٹ کا حق 1919ء میں ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Batrawy
سن 2017: سعودی اسٹاک ایکسچینج کی خاتون سربراہ
فروی سن دو ہزار سترہ میں سعودی اسٹاک ایکسچینج کی سربراہ کے طور پر سارہ السحیمی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی عرب میں اس اہم عہدے پر کسی خاتون کا تقرر عمل میں آیا۔
تصویر: pictur- alliance/abaca/Balkis Press
سن 2018: ڈرائیونگ کی اجازت
چھبیس ستمبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ خواتین کو گاڑی چلانے کی قانونی اجازت دی جا رہی ہے۔ جون سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین کو ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپنے کسی مرد سرپرست سے اجازت لیں یا گاڑی چلاتے ہوئے مرد سرپرست کو بھی ساتھ بٹھائیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
سن 2018: اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت
انتیس اکتوبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی عرب کی ’جنرل اسپورٹس اتھارٹی‘ نے اعلان کیا کہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین ملک میں قائم تین بڑے اسپورٹس اسٹیڈیمز میں جا کر وہاں منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں سے لطف انداز ہو سکیں گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
11 تصاویر1 | 11
کنوارے پن ی تصدیق کے ٹیسٹ کے بعد مریم ’’مائی وجائنا از مائن‘‘یعنی’’میری اندام نہانی میری ہے‘‘ نامی ایک تحریک میں شامل ہو گئیں۔ مریم کے بقول، ’’جنسی زیادتی کی بدترین شکل وہ ہوتی ہے، جب کسی نوجوان خاتون سے اس کی جنسی خود مختاری کا حق بھی چھین لیا جائے۔‘‘
مکناس نامی علاقہ الاطلس پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ یہاں ایک بزرگ خاتون رہتی ہیں۔ انہیں بہت ہی فیض یاب سمجھا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ خاتون یہ تصدیق کرتی ہیں کہ لڑکی ابھی تک کنواری ہے یا نہیں۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے اس ’فیض یاب‘ خاتون نے بتایا، ’’ مجھ پر بہت بڑی ذمہ داری ہے کیونکہ میرے پاس بہت سے خاندانوں کے راز ہیں۔ یہ میرے دل میں ہی دفن رہیں گے کیونکہ اس کا تعلق کنوارے پن سے ہے یعنی ’غیرت‘ سے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کا طریقہ کار نہ تو تکلیف دہ ہے اور نہ ہی قدیم۔ وہ قدرتی اشیاء استعمال کرتی ہیں تاکہ کوئی نازک حصہ زخمی نہ ہو، ’’پردہ بکارت کی موجودگی کی تصدیق کے لیے وہ انڈوں کا استعمال کرتی ہیں۔ اکثر لڑکیاں اپنے ہاتھوں سے یہ عمل کرتی ہیں۔‘‘
’مائی وجائنا از مائن‘ نامی مہم میں شامل خواتین کنوارے پن کے ٹیسٹ کی رسم کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ اس طرح نوجوان لڑکیوں کی جنسی آزادی اور انسانی وقار کو مجروح کیا جاتا ہے۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم سے وابستہ سارہ العونی کہتی ہیں کہ اس مہم کا مقصد کسی نہ کسی انداز سے جنسی زیادتی کا شکار بننے والی اور اس موضوع پر بات کرنے کی ہمت نہ رکھنے والی تمام خواتین کو آگاہی مہیا کرنا اور اعتماد پیدا کرنا ہے۔‘‘