مراکش کے زلزلے کے بارے میں ضروری معلومات
11 ستمبر 2023جمعے کی شب جب لاکھوں مراکشی باشندے خوابیدہ تھےعین اُس وقت شہر مراکیش کے جنوب مغرب میں 6.8 شدت کے زلزلے نے اس شہر سمیت ارد گرد کے کئی علاقوں کو تہہ و بالا کر دیا۔ نہتے مراکشی باشندوں کی آہ و بُکا پر امدادی کارکن دوڑ پڑے اور بھاری ملبے تلے زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کا کام شروع ہو گیا۔
پیر کو مراکش میں چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران آنے والے سب سے مہلک زلزلے کے 48 گھنٹے بعد تقریباً 2,500 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چُکی ہے۔ تاہم اطلس کے کوہستانی علاقے کے ارد گرد کے بہت سے دیہاتوں تک ریسکیو ٹیمیں ابھی تک بھی نہیں پہنچ پائی ہیں۔
دریں اثناء اسپین، برطانیہ اور قطر سے سرچ ٹیمیں مقامی امدادی کارکنوں کے ساتھ مل کر زلزلے میں بچ جانے والوں کا پتا لگانے کے کٹھن کام میں شامل ہو رہی ہیں۔
شہر مراکیش کے جنوب میں 75 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں میں خواتین اور بچے پیر کی صبح سویرے جمع ہوئے۔ جہاں انہیں سڑک کے ساتھ اور ایک تباہ شدہ عمارت کے نزدیک لگائے گئے عارضی خیموں کے نیچے سر چھپانے کی جگہ فراہم کی گئی۔
ان کے خیموں سے نزدیک کھڑی ایک گاڑی کا منظر اس زلزلے کی شدت کا پتا دے رہا تھا۔ یہ گاڑی چٹانوں سے گرنے والے پتھروں سے پوری طرح کچلی گئی تھی۔
تافغاغت نامی ایک گاؤں کے ایک رہائشی حامد بن حنا نے اپنے آٹھ سالہ بچے کی موت کا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی پوری فیملی اکٹھی بیٹھ کر ڈنر کر رہی تھی، وہ ایک چھری لینے کچن تک گئے کہ زلزلے کا جھٹکا آیا اور گھر کی عمارت گری اور ان کا آٹھ سالہ بچہ ملبے تلے دب کر دم گھٹنے سے مر گیا۔ ان کے خاندان کے باقی افراد تاہم بچ گئے۔
بہت سے دور دراز اور مشکل رسائی والے علاقوں میں زلزلے سے پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگا نا فی الحال ناممکن ہے۔ مراکشی حکام نے ان علاقوں میں لاپتا افراد کی کوئی تعداد اب تک نہیں بتائی۔ جا بجا ٹوٹی چٹانوں کا ڈھیر سڑکوں کی بندش کی بڑی وجہ ہے ۔
سب سے زیادہ متاثرہ علاقے
زلزلے کا مرکز مراکش کا پہاڑی علاقہ اطلس تھا جو مراکیش شہر سے 70 کلو میٹر جنوب کی طرف صوبے الحوض میں واقع ہے۔ یہ خطہ زیادہ تر دیہی ہے، سرخ چٹانی پہاڑوں سے جھپا ہوا ، دلکش گھاٹیاں اور چمکتی ندیاں اور جھیلیں اس علاقے کی کشش کی اہم ترین وجوہات ہیں۔
ایک 72 سالہ پہاڑی گائیڈ حامد ادسالہ اورگین وادی سے تعلق رکھتے ہیں ان کا کہنا ہہ کہ اورگین وادی، کے رہائشیوں کا مستقبل اب بالکل واضح نہیں رہا۔ ادسالہ کا گزر بسرمراکش اور غیر ملکی سیاحوں پر ہے جو اس خطے کا دورہ کرتے ہیں۔ یہ علاقہ مراکیش اور شمالی افریقہ کی سب سے اونچی چوٹی جبل توبقال دونوں سے قربت کی وجہ سے پیدل سفر و سیاحت کرنے والوں اور کوہ پیماؤں کے لیے ایک انوکھی کشش رکھتا ہے۔ زلزلے کی تباہی پر شدید افسردہ حامد ادسالہ کہتے ہیں،''میں اپنے گھر کو دوبارہ نہیں بنا سکتا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا کروں گا۔ پھر بھی، میں زندہ ہوں لہذا میں انتظار کروں گا۔‘‘
اتوار کی شام تک 2,122 اموات میں سے 1,351 ال ہاؤز میں ہوئیں یہ وہ خطہ ہے جس کی آبادی 570,000 کے قریب ہے۔ یہ اعداد و شمار مراکش کی 2014ء کی مردم شماری کے مطابق ہیں۔ اس علاقے کے لوگ عربی اور Tachelhit کا مجموعہ زبان بولتے ہیں۔ اس خطے میں مٹی اور مٹی کی اینٹوں سے بنے دیہات جو پہاڑوں کے ساتھ ساتھ بنے ہوئے تھے تباہ ہو گئے ہیں۔
ہنگامی صورتحال جاری
جیسے جیسے امدادی ٹیمیں متاثرہ علاقوں میں پہنچ رہی ہیں ویسے ویسے ہنگامی کارروائیوں کے جاری رہنے کا امکان بڑھ رہا ہے۔ پہاڑی علاقوں کو جانے والی سڑکوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ مقامی براردیاں جو زلزلے میں بچ گئیں ہیں کو خوراک، پانی، بجلی اور رہائش کی شدید کمی کا سامنا ہے۔اس علاقے کو اپنا گھر کہنے والے ہزاروں افراد ہیں جنہیں نہیں معلوم کے آیا انہیں اپنا گھر پھر نصیب ہوگا۔ مراکش کی پارلیمنٹ کے اراکین کا اجلاس پیر کو ہوا جس میں شاہ محمد ششم کی درخواست پر زلزلے کے متاثرین اور تعیمر نو کے کاموں کے لیے حکومتی فنڈ بنانے کی درخواست پیش کی گئی۔
ک م/ ش ر(اے پی)