مردان ریلی میں ایک مولانا کا توہین مذہب کے الزام میں قتل
7 مئی 2023
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے شہر مردان میں پی ٹی آئی کی ایک ریلی کے مشتعل شرکاء نے ایک مقامی مولانا کو توہین مذہب کے الزام میں مار مار کر ہلاک کر دیا۔ مقتول کی عمر چالیس سال اور نام مولانا نگار عالم بتایا گیا ہے۔
اشتہار
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور سے اتوار سات مئی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق مقتول مذہبی شخصیت نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مبینہ طور پر توہین مذہب کا باعث بننے والے کلمات ادا کیے تھے۔
مقامی پولیس افسر اقبال خان نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ یہ افسوس ناک واقعہ ضلع مردان کے ایک گاؤں میں ہفتے کی رات پیش آیا۔ وہاں اہتمام کردہ تحریک انصاف کی اس احتجاجی ریلی کا مقصد ملکی عدلیہ کے لیے حمایت کا اظہار تھا۔
اشتہار
اختتامی دعا کے دوران مبینہ متنازعہ کلمات
مولانا نگار عالم کو اس ریلی کے شرکاء نے مشتعل ہو کر اس وقت تشدد کر کے ہلاک کر دیا، جب انہوں نے اس اجتماع کے اختتام پر وہ دعا کروائی، جس میں مبینہ طور پر توہین مذہب کا سبب بننے والے کلمات ادا کیے گئے تھے۔
کیا پاکستان میں توہین مذہب قانون پر نظر ثانی ممکن ہے؟
پولیس افسر اقبال خان نے بتایا، ''مقتول نے جو دعا کروائی، اس میں چند الفاظ کو کئی شرکاء نے توہین مذہب کا باعث بننے والے کلمات جانا اور اس کے بعد مولانا نگار عالم پر تشدد شروع کر دیا، جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔‘‘
عینی شاہدین کے مطابق موقع پر موجود پولیس افسران نے نگار عالم کو مشتعل ہجوم سے بچانے کی کوشش کی اور حفاظتی طور پر انہیں ایک قریبی دکان میں لے جا کر بند بھی کر دیا گیا۔ تاہم ہجوم ان کا پیچھا کرتا ہوا آیا اور دکان کا دروازہ توڑ کر مولانا نگار عالم کو باہر نکال کر ان پر اتنا تشدد کیا کہ وہ ہلاک ہو گئے۔
اس واقعے کی سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح بہت سے مشتعل افراد مقتول کو زمین پر گرا کر ان پر ٹھڈوں اور ڈنڈوں سے مسلسل حملے کرتے رہے۔ پولیس کے مطابق اس نے اس واقعے کے بعد مقتول کی لاش قبضے میں لے لی اور تفتیش جاری ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب کے الزامات کا لگایا جانا عام بات
مسلم اکثریتی ملک پاکستان میں مسلم یا غیر مسلم شہریوں پر توہین مذہب کے الزامات کا لگایا جانا اب ایک عام سی بات ہے۔ ابھی گزشتہ مہینے ہی پولیس نے ایک ایسے چینی شہری کو پہلے گرفتار اور پھر رہا کر دیا، جو پاکستان میں ایک ڈیم کی تعمیر کے منصوبے پر کام کرتا ہے اور جس پر چند مقامی افراد نے توہین مذہب کا الزام لگایا تھا۔
اس سے قبل فروری میں بھی ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر لاہور میں ایک مشتعل ہجوم نے ایک تھانے میں گھس کر حوالات میں بند ایک ایسے شخص کو باہر نکال کر اس پر بے تحاشا تشدد کرنا شروع کر دیا تھا، جس پر توہین مذہب کا الزام تھا۔ یہ شخص بھی اس تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہو گیا تھا۔
اس سے بھی قبل 2021ء میں پاکستان ہی میں ایک فیکٹری کے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مینیجر کو بھی ایک مشتعل ہجوم نے یہ کہہ کر مار مار کر ہلاک کر دیا تھا کہ وہ غیر ملکی مبینہ طور پر توہین مذہب کا مرتکب ہوا تھا۔
م م / ش ر (اے پی، اے ایف پی)
دھرنے والے کیا چاہتے ہیں آخر؟
اسلام آباد میں مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ کے کارکنان نے انتخابی اصلاحات کے مسودہ قانون میں حلف اٹھانے کی مد میں کی گئی ترمیم کے ذمہ داران کے خلاف دھرنا دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’استعفیٰ چاہیے‘
مذہبی تنظیم ’تحریک لبیک یا رسول اللہ‘ مطالبہ ہے کہ ترمیم کے مبینہ طور پر ذمہ دار وفاقی وزیر زاہد حامد کو فوری طور پر اُن کے عہدے سے برخاست کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’درستی تو ہو گئی ہے‘
پاکستانی پارلیمان میں انتخابی اصلاحات میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں پیغمبر اسلام کے ختم نبوت کے حلف سے متعلق شق مبینہ طور پر حذف کر دی گئی تھی۔ تاہم نشاندہی کے بعد اس شق کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔
تصویر: AP Photo/A. Naveed
’معافی بھی مانگ لی‘
پاکستان کے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اس معاملے پر پہلے ہی معافی طلب کر چکے ہیں۔ زاہد حامد کے بقول پیغمبر اسلام کے آخری نبی ہونے کے حوالے سے شق کا حذف ہونا دفتری غلطی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
کوشش ناکام کیوں ہوئی؟
پاکستانی حکومت کی جانب سے اس دھرنے کے خاتمے کے لیے متعدد مرتبہ کوشش کی گئی، تاہم یہ بات چیت کسی نتیجے پر نہ پہنچی۔ فریقین مذاکرات کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/B. K. Bangash
’کیا یہ غلطی نہیں تھی’
تحریک لبیک کے مطابق ایسا کر کے وفاقی وزیر قانون نے ملک کی احمدی کمیونٹی کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ اس تحریک کے سربراہ خادم حسین رضوی کے بقول زاہد حامد کو ملازمت سے برطرف کیے جانے تک احتجاجی مظاہرہ جاری رہے گا۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
شہری مشکلات کا شکار
اس مذہبی جماعت کے حامی گزشتہ تین ہفتوں سے اسلام آباد میں داخلے کا ایک مرکزی راستہ بند کیے ہوئے ہیں اور یہ احتجاج راولپنڈی اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرنے والوں کے لیے شدید مسائل کا باعث بنا ہوا ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
مہلت ختم ہو گئی
مقامی انتظامیہ نے اس دھرنے کے شرکاء کو پرامن انداز سے منتشر ہونے کی ہدایات دی تھیں اور خبردار کیا تھا کہ بہ صورت دیگر ان کے خلاف طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ گزشتہ نصف شب کو پوری ہونے والی اس ڈیڈلائن نظرانداز کر دیے جانے کے بعد ہفتے کی صبح پولیس نے مذہبی جماعت تحریک لبیک یارسول سے وابستہ مظاہرین کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دیا گیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Naveed
کارروائی کا آغاز
ہفتے کی صبح آٹھ ہزار سے زائد سکیورٹی فورسز نے اس دھرنے کو ختم کرنے کی کارروائی شروع کی تو مشتعل مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ اس دوران 150 سے زائد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters
اپیل کی کارروائی
پاکستانی حکام نے اپیل کی ہے کہ مظاہرین پرامن طریقے سے دھرنا ختم کر دیں۔ پاکستانی وزیر داخلہ احسن اقبال کے مطابق عدالتی حکم کے بعد تحریک لبیک کو یہ مظاہرہ ختم کر دینا چاہیے تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/NA. Naveed
پاکستانی فوج کے سربراہ کی ’مداخلت‘
فیض آباد انٹر چینج پر تشدد کے بعد لاہور اور کراچی سمیت دیگر شہروں میں بھی لوگ تحریک لبیک کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ اس صورتحال میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجودہ نے کہا ہے کہ یہ دھرنا پرامن طریقے سے ختم کر دینا چاہیے۔ انہوں نے فریقین پر زور دیا کہ وہ تشدد سے باز رہیں۔