1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مردم شماری نتائج پر سندھ کی جماعتوں کا احتجاج

29 اگست 2017

پاکستان میں اٹھارہ برس بعد ہونے والی مردم شماری کے اعداد و شمار جاری ہوتے ہی سندھ میں حکمران پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی اور قوم پرست جماعتوں نے صدائے احتجاج بلند کرنا شروع کر دی ہے۔

Pakistan, Farooq Sattar spricht bei einer Pressekonferenz
تصویر: DW/Raffat Saeed

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے زیر صدارت مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں جاری کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی مجموعی آباد 20 کروڑ 77 لاکھ ہے۔ ان اعداد وشمار کے مطابق پنجاب کی آبادی گیارہ کروڑ، سندھ کی چار کروڑ اٹھہتر لاکھ، خیبر پختونخوا کی تین کروڑ پانچ لاکھ  اور بلوچستان کی آباد ایک کروڑ تیئس لاکھ ہے۔

پیپلز پارٹی نے نئی مردم شماری میں سندھ کے حوالے سے اعداد کو شمار مسترد کردیے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی کہتے ہیں کہ ادارہ شماریات کے عملے اور مسلح افواج کی جانب سے مردم شماری کے جو اعداد وشمار مرتب کیے گئے ہیں انہیں آپس میں ملانا غیر قانونی ہے۔ سعید غنی کے مطابق، ’’مردم شماری کے دوران ہی وزیر اعلٰی سندھ نے مردم شماری کمشنر کو خط لکھا تھا کہ ضلع کی بنیاد پر جمع کیا گیا ڈیٹا خفیہ نہ رکھا جائے اور اگر یہ ڈیٹا خفیہ نہ رکھا جاتا تو آج یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ مگر انہوں نے ہماری بات نہیں مانی۔ لہٰذا ہم نے عدالت سے بھی رجوع کیا۔ عجیب بات ہے کہ کراچی میں مردم شماری شہری اور دیہی کی تقسیم کے تحت کی جارہی ہے، جبکہ لاہور میں یہ کام مشترکہ طور پر کیا گیا ہے۔

پیپلز پارٹی کے علاوہ سندھ کی قوم پرست جماعتیں بھی سندھ کی آبادی کم شمار کیے جانے پر احتجاج کے لیے پرتول رہی ہیں۔ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو کہتے ہیں، ’’تھرپارکر، نگر پارکر سمیت ہزاروں گاؤں کا شمار کیا ہی نہیں گیا اور دفتر میں بیٹھ کر اعداد و شمار مرتب کیے گئے ہیں۔‘‘ ان کا دعوٰی ہے کہ سندھ کی آبادی سات کروڑ سے کسی صورت کم نہیں ہے: ’’آبادی کم ظاہر کرنا اردو اور سندھی بولنے والے سندھ کے مستقل باشندوں کے ساتھ زیادتی ہے اس زیادتی کو کسی صورت تسلیم نہیں کیا جائے گا اور بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔‘‘

پیپلز پارٹی اور سندھی قوم پرستوں کی طرح ایم کیو ایم پاکستان کے سرکردہ رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے بھی سندھ کی آبادی کے حوالے سے اعداد و شمار کو یکسر مسترد کردیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق کراچی کی آباد ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ ہے جبکہ ڈاکٹر فاروق ستار کہتے ہیں ان کے خدشات درست ثابت ہوئے، ’’کراچی کی آبادی کسی صورت بھی تین کروڑ سے کم نہیں ہے سندھ کے شہری علاقوں میں بسنے والوں کو معاشرتی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے۔ مردم شماری میں بد ترین دھاندلی اور نا انصافی کی گئی ہے۔ اٹھارہ سال پہلے کی جانے والی مردم شماری میں بھی سندھ کے شہری علاقوں کی عوام سے یہی زیادتی کی گئی تھی لیکن اس بار برتے جانے والے تعصب کو قبول نہیں کریں گے اور دس ستمبر کو مزار قائد پر احتجاج کا آغاز کریں گے۔‘‘

مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد اور پاک سر زمین پارٹی نے بھی مردم شماری کو مسترد کردیا ہے۔ انیس ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ کسی کی نیت پر شک نہیں لیکن سندھ کی عوام سے زیادتی کو قبول نہیں کریں گے اور حقوق کے لیے ہر فورم پر احتجاج کریں گے۔ خواتین کی آبادی کم ظاہر کیے جانے پر حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں بھی مرد شماری کے اعداد و شمار پر سوالات اٹھارہی ہیں۔

کراچی کے خواجہ سراؤں کے گُرو بندیا رعنا کے مطابق مردم شماری میں بھی ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہےتصویر: DW/Raffat Saeed

مردم شماری کے اعداد شمار کے مطابق سندھ میں صرف دو ہزار پانچ سو ستائیس خواجہ سرا آباد ہیں اور کراچی میں ان کی تعداد ایک ہزار چار سو ستانوے ہے۔ کراچی کے خواجہ سراؤں کے گُرو بندیا رعنا کے مطابق مردم شماری میں بھی ان کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور اس حوالے سے جلد پریس کلب پر شہر بھر کے خواجہ سرا جمع ہوکر احتجاج کریں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں