1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مردوں پر بھی گھریلو تشدد ہوتا ہے، تحفظ کے لیے حکومتی مہم

19 جون 2019

عام طور پر کہا یہ جاتا ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں خواتین پر گھریلو تشدد کیا جاتا ہے مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ اس لیے کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں مردوں پر بھی گھریلو تشدد کیا جاتا ہے جو خواتین کرتی ہیں۔

دو ہزار سترہ میں جرمنی میں گھریلو تشدد کے شکار شہریوں میں سے اٹھارہ فیصد مرد تھےتصویر: picture-alliance/dpa/J.-P. Strobel

ماہرین کا کہنا ہے کہ مردوں پر گھریلو تشدد زیادہ تر ان معاشروں میں ہوتا ہے جہاں خواتین کو سماجی طور پر بہت زیادہ مساوی حقوق حاصل ہوتے ہیں اور ان معاشروں میں جو پدر شاہی معاشرے نہیں ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پدر شاہی سماجی ڈھانچوں میں تو اکثر خواتین ایسا کرنے کا سوچتی بھی نہیں۔ جن ممالک میں مردوں کو صنف مخالف کے ہاتھوں اس طرح کے گھریلو تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان میں کئی مغربی ممالک بھی شامل ہیں، جن میں سے ایک مثال جرمنی کی بھی ہے۔

جرمنی کی کل سولہ میں سے دو وفاقی ریاستوں میں اب حکومتی سطح پر تاریخ میں پہلی بار ایسی باقاعدہ سرکاری مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس کا مقصد مردوں کو گھریلو تشدد سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس بارے میں وفاقی جرمن صوبوں باویریا اور نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں حکام نے کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ اب اس موضوع کو سماجی طور پر شجر ممنوعہ رکھنے کی سوچ تبدیل ہونا چاہیے اور اس مسئلے کا کوئی مستقل حل نکالا جانا چاہیے۔

متاثرہ مردوں کے لیے ہاٹ لائن اور 'محفوظ گھر‘

ان دونوں جرمن صوبوں میں، جن میں سے ایک جرمنی کا جنوبی صوبہ باویریا ہے اور دوسرا ملک کا سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ نارتھ رائن ویسٹ فیلیا (این آر ڈبلیو)، اب پہلی بار یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ علاقائی حکومتیں نہ صرف مردوں پر گھریلو تشدد کے خلاف ٹیلی فون ہاٹ لائنیں قائم کریں گی بلکہ اسی سلسلے میں صوبائی سطح پر متاثرین کی مدد کے لیے آن لائن مشاورتی پلیٹ فارم بھی قائم کیے جائیں گے۔

تصویر: picture-alliance/dpa/K.-J. Hildenbrand

یہی نہیں بلکہ آئندہ ان صوبوں میں ایسے 'محفوظ گھر‘ بھی قائم کیے جائیں گے، جہاں گھریلو زندگی میں تشدد کا شکار ہونے والے مردوں کو رہائش اختیار کرنے کا موقع بھی فراہم کیا جائے گا۔ اس بارے میں ان دونوں جرمن صوبوں کے علاقائی حکومتی اہلکاروں کی طرف سے بتایا گیا کہ اب بالآخر 'اس تشدد کو نظر آنا چاہیے اور اس پر پردہ پوشی کے لیے کھڑی کی گئی دیواریں گرائی جانا چاہییں‘۔

پہلے ایکشن پلان، پھر قانون سازی

جرمنی سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سرکاری سطح پر یہ کوششیں اب ماضی کے مقابلے میں کافی زیادہ ہو چکی ہیں کہ صرف مردوں کی طرف سے تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کو ہی نہیں بلکہ ان مردوں کو بھی تحفظ فراہم کیا جانا چاہیے، جو ازدواجی زندگی میں اپنی ساتھی خواتین کی طرف سے مار پیٹ اور تشدد کا شکار ہوتے ہیں۔

مردوں کے تحفظ کی ان صوبائی مہموں کو متعارف کراتے ہوئے باویریا اور این آر ڈبلیو کی حکومتوں کے نمائندوں کی طرف سے کہا گیا کہ وہ اس امر کا خیر مقدم کریں گے کہ اسی طرح کی حکومتی پیش رفت کا مظاہرہ جرمنی کے باقی ماندہ چودہ وفاقی صوبے بھی کریں۔

بہت سے مرد سماجی طور پر شرمندگی کی خوف کی وجہ سے پولیس کو ایسے جرائم کی اطلاع ہی نہیں دیتےتصویر: DW/M. A. Laktaoui

این آر ڈبلیو کی صوبائی حکومت کی ایک نمائندہ اہلکار اینا شارین باخ نے کہا، ''ڈسلڈورف میں صوبائی حکومت مردوں اور لڑکوں پر گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے ایک ایسا ایکشن پلان تیار کر رہی ہے، جسے باقاعدہ قانون سازی کے لیے منظوری کی خاطر 2021ء میں صوبائی پارلیمان میں پیش کر دیا جائے گا۔‘‘

اٹھارہ فیصد متاثرین مرد

جرمنی میں جرائم کی روک تھام کے وفاقی دفتر کے مطابق یہ ادارہ ہر سال گھریلو تشدد سے متعلقہ جرائم کے بارے میں باقاعدہ اعداد و شمار جمع کرتا ہے۔ اس دفتر کی 2018ء میں 2017ء کے لیے جاری کردہ سالانہ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں گزشتہ برس گھریلو تشدد کے جتنے بھی واقعات رونما ہوئے، ان میں سے 18 فیصد متاثرین مرد تھے۔

بی کے اے نامی اس وفاقی دفتر کے مطابق 2017ء میں جن جرمن شہریوں نے اپنے یا اپنی شریک حیات کی طرف سے گھریلو تشدد، جنسی زیادتی، اقدام قتل اور شخصی آزادی کو محدود کر دینے جیسے جرائم کی پولیس کو باقاعدہ اطلاع دی، ان میں سے تقریباﹰ 24 ہزار متاثرین مرد تھے۔ ساتھ ہی بی کے اے نے یہ بھی کہا کہ جرمنی میں ایسے جرائم سے متاثرہ مردوں کی اصل تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بہت سے مرد سماجی طور پر شرمندگی کی خوف کی وجہ سے پولیس کو ایسے جرائم کی اطلاع ہی نہیں دیتے۔

م م / ب ج / ڈی ڈبلیو

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں