شدت پسندی ہر نظریے ہر خیال اور معاملے کو الجھا دیتی ہے۔ پھر چاہے وہ مذہب ہو یا جدید معاشروں کے نظریے، جو اپنے کٹر پن کی وجہ سے خود ان کے ماننے والوں کو بھی کئی بار حیرت زدہ کر جاتے ہیں۔
اشتہار
ایسا ہی کچھ ہمارے ہاں فمینزم کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ بات شروع ہوئی تھی تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی مساوات کی لیکن اب اس کا رخ عجیب شدت پسند خواہشات کی طرف موڑا جانے لگا ہے۔
کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ میری ہم آواز بہنیں اب اپنا ایک الگ خیالی جزیرہ بنا کر ہی دم لیں گی اور اس میں یہ ساری دنیا کے مرد لے جا کر چھوڑ دیں گی یا پھر خود جا بسیں گی۔
مرد مخالف بیانات کی جو لہر پچھلے ایک دو برس میں چلی ہے، اسے دیکھتے ہوئے بہت گریس مارکس دینے کے باوجود بھی سب کچھ سمجھ سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔
ان باتوں کی وجہ سے عام طور پر جو منشور سامنے آتا ہے، وہ یہ ہے۔ آج کی عورت کیا چاہتی ہے؟ کیا بالکل وہی جو مرد کرتے ہیں۔ یعنی گالم گلوچ، بدتمیزی، سگریٹ نوشی، راتوں میں دیر تک بلا وجہ گھر سے باہر پھرنے کی آزادی اور۔۔۔
اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنسی آزادی بھی اب ساری کی ساری عورتوں کو ہی ملے اور مرد ایسی ہر خواہش اور آزادی کو تج دیں کیونکہ بہرحال عورت کے 'نومطالباتی اختیارات‘ کا تقاضا یہی ہے کہ مرد مکمل طور پر انہی جیسی ایک عورت ہو جائے، یعنی وہ عورت جو مرد معاشرے کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے نکلی ہے، چاہے بعد میں پھر یہ مرد کسی ’مادرسری سماج‘ میں اپنے حقوق کی جنگ لڑتا ہوا دکھائی دے۔
خواتین کا معیار زندگی: پاکستان بدترین ممالک میں شامل
خواتین، امن اور تحفظ سے متعلق شائع ہونے والے ایک انڈیکس کے مطابق خواتین کے معیار زندگی کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے آٹھ بد ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس انڈیکس میں صرف شام، افغانستان اور یمن پاکستان سے پیچھے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
خواتین کی فلاح اور ان کی زندگی میں بہتری
جارج ٹاؤن انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں تین مختلف زاویوں سے خواتین کی فلاح اور ان کی زندگی میں بہتری کا تعین لگایا جاتا ہے۔ ان تین زاویوں میں معاشی، سماجی اور سیاسی شمولیت، قانون تک رسائی، اپنے علاقوں، خاندان اور سماجی سطح پر تحفظ کا احساس شامل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
خواتین معاشی طور پر خود مختار نہیں
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر خواتین معاشی طور پر خود مختار نہیں ہیں۔ صرف سات فیصد خواتین کے پاس اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹ ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Ali
مردوں اور خواتین میں مساوات کا تناسب کم
جارج ٹاؤن انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 34 ممالک میں انصاف سے متعلق مردوں اور خواتین میں مساوات کا تناسب کم ہوا ہے۔ اس حوالے سے سب سے خراب کارکردگی پاکستان کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum
خواتین کی نوکریاں
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 75 فیصد مردوں کی رائے میں ان کے لیے یہ ناقابل قبول ہے کہ خواتین ایسی نوکری کریں جن سے انہیں کوئی معاوضہ وصول ہو۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
تحفظ کا احساس
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سماجی لحاظ سے پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے احساس میں کچھ حد تک بہتری آئی ہے۔ پاکستانی خواتین کا کہنا تھا کہ وہ شام کے اوقات میں اپنے محلے میں تنہا چلتے ہوئے غیر محفوظ محسوس نہیں کرتیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum
خواتین کے لیے بدترین ممالک
اس اشارعیہ میں خواتین کے حوالے سے بدترین ممالک میں پاکستان کے علاوہ لیبیا، عراق، کانگو، جنوبی سوڈان، شام، افغانستان، وسطی افریقی ریاست شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Zahir
جرمنی کا نمبر اس فہرست میں سترہواں
اس رپورٹ میں دنیا کے 167 ممالک کا جائزہ لیا گیا تھا۔ خواتین کی فلاح اور ان کی معیار زندگی کے لحاظ سے ناروے دنیا کا سب سے بہترین ملک ہے۔ جرمنی کا نمبر اس فہرست میں سترہواں ہے۔
تصویر: Reuters/H. Hanschke
7 تصاویر1 | 7
میڈیا کا کردار
میرے خیال میں یہ سب مبالغہ آرائی نہیں ہے۔ آپ انڈین، پاکستانی اور دیگر سوشل میڈیا فورمز پر موجود فمینزم کے جھنڈے تلے بنی شارٹ اور لانگ موویز ہی دیکھ لیں، سوائے ایک دو کے باقی سب کے اندر لڑکیوں کو ایسے ہی خواب بنتے دکھایا جاتا ہے کہ جن میں وہ سڑک پر چلتے لڑکوں کو چھیڑیں، سیٹیاں بجائیں، گھور سکیں اور انہیں بھی ایسا ہی غیر محفوظ محسوس کروا سکیں جیسا وہ خود کرتی ہیں۔
آپ کہیں گے یہ تو دیکھنے والوں کو احساس دلانے کے لیے بنائی جاتی ہیں کہ عورتوں کو کیسا محسوس ہوتا ہے۔
لیکن احساس دلانے اور انتقامی جذبے کا اظہار کرنے میں پھر کوئی فرق نہیں رہ جاتا۔ کہا جا سکتا ہے کہ چند ایک موویز یا ڈراموں کو بنیاد بنا کر بات نہیں کی جا سکتی۔
اشتہار
جذبہ آزادی یا انتقامی
لیکن وہی بات، یہاں بھی اصل زندگی کے مشاہدات کام آتے ہیں کہ نئی نئی جوان ہوتی نسل میں یہ جذبہ آزاد ہونے سے زیادہ انتقامی بنتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ کیا یہ واقعی عورت کے لیے کسی محفوظ معاشرے کا ماڈل ہے؟
یعنی ایسا معاشرہ جس میں عورت اپنی کٹھ پتلی جیسی حیثیت سے چھٹکارا پائے تو مرد کو اس منصب پر دھکیل دے؟ توازن تو دونوں صورتوں میں نہیں بن پایا۔
عورتوں کو اختیار دینے کے دکھاوے میں ورکنگ وومن کے سر پر گھر سے باہر کے کام بھی لاد دیے گئے اور گھر کے اندر کے کام بھی کسی طرح کم ہونے میں نہیں آتے۔
یوں دوہری بلکہ تہری ذمہ داری کے ساتھ دن رات کام کرتی عورتوں نے اپنے گھر کے مردوں کو مزید آرام طلب بنا دیا۔
بتائیں کیا ایسا نہیں ہے؟
پاکستانی گھروں میں موجود بیٹیاں، بیٹوں کے مقابلے میں زیادہ اچھی پوزیشنز لاتی ہیں، اچھی جابز، گھر داری اور باہر داری سب میں آگے ہیں۔
بیٹیوں کی معاشی اور سماجی خودمختاری ہمارے فمینزم کا اصل مقصد ہونا چاہیے لیکن ایسا کرتے کرتے اگر ہم اپنے گھر کے مردوں کو اس قدر آرام پسند بناتے جائیں گے تو یہ بھی ہمارے ساتھ ہی ظلم ہے۔
اس 'مردانہ وار جدوجہد‘ کا انجام یہی دکھائی دیتا ہے کہ کچھ صدیوں بعد یہی مرد آج کی عورت کی طرح آزادی مارچ کرتے اور عورت کے مظالم سے نجات کا مطالبہ کرتے دکھائی دیں گے۔
گرم خون کو ہر نعرہ بہت دلفریب لگتا ہے، یہ والا تو ہے بھی، لیکن سوچیے کہ آپ اسے کس حد تک نبھانا افورڈ کر سکتے ہیں؟ اپنے لیے تو ہر کوئی سوچتا ہے، آنے والے مردوں کے لیے سوچیے!
عورت کس کس روپ ميں استحصال کا شکار
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين غلامی پر مجبور ہيں اور کئی صورتوں ميں خواتين کا استحصال جاری ہے۔ جبری مشقت، کم عمری ميں شادی، جنسی ہراسگی اور ديگر کئی جرائم سے سب سے زيادہ متاثرہ عورتيں ہی ہيں۔
تصویر: dapd
جدید غلامی کيا ہے؟
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images
تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت، قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔
تصویر: Sazzad Hossain/DW
جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Bouys
نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم
'واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا 'ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی، جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔