1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صنفی مساواتعالمی

مردوں کے مقابلے میں خواتین خلا بازوں کی تعداد کم کیوں ہے؟

18 اگست 2022

خلا میں مردوں اور عورتوں پر ایک جیسے جسمانی و نفسیاتی عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ اگر خلا میں زیادہ دیر ٹھہرنا مقصود ہو تو خواتین زیادہ موزوں ہیں لیکن اس کے باوجود خلا میں جانے والی خواتین کی تعداد کم کیوں ہے؟

سوویت یونین نے 1963ء  میں پہلی عورت ویلینٹینا کو خلا میں بھیج کر یہ 'اعزاز‘ اپنے نام کر لیاتصویر: picture-alliance/RIA Nowosti

آج تک جتنی خواتین نے خلا نورد بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے، ان کی یہ تعداد کُل خلانوردوں کی تعداد کا دس فیصد بنتی ہے۔ سوویت یونین کے خلائی ادارے سے وابستہ ڈائریکٹر نے 1962ء  میں اپنی ڈائری میں ایک نوٹ لکھا، جو بہت دلچسپ ہے۔ انہوں نے لکھا تھا، ''ہم کسی صورت اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ خلا میں جانے والی پہلی عورت امریکی ہو۔‘‘ یہ نوٹ ایک دوڑ کی غمازی کرتا ہے، جو امریکہ اور روس کے درمیان ساٹھ کی دہائی میں عروج پر تھی۔ یہاں عورت کی صلاحیتوں کا اعتراف نہیں بلکہ زور اس بات پر ہے کہ ہم خلا میں پہلے عورت کو بھجیں گے۔ سوویت یونین نے 1963ء  میں پہلی عورت ویلینٹینا کو خلا میں بھیج کر یہ 'اعزاز‘ اپنے نام کر لیا۔ اس کے بعد دو دہائیوں تک خاموشی رہی۔

امریکہ میں 1959ء میں پرائیویٹ سطح پر خواتین پائلٹس کا ایک گروپ تشکیل دیا گیا۔ اس گروپ کی تربیت ناسا کے ماہرین کی زیر نگرانی ہوئی اور ان خواتین کو ان تمام مشکل تربیتی مراحل سے گزارا گیا، جن میں مردوں کو گزرنا پڑتا تھا۔ تربیت کامیابی سے مکمل ہوئی لیکن یہ گروپ جس کو 'مرکری 13‘ کا نام دیا گیا تھا، اس میں کسی خاتون کو خلا میں جانے کے لیے منتخب نہ کیا گیا۔

 70 کی دہائی میں مشہور اداکارہ و گلوکارہ نشال نکلز نے خلائی پروگرامز میں خواتین اور کلرڈ افراد کو شامل نہ کرنے کے خلاف مہم چلائی۔ ناسا نے ان کو کہا کہ آپ رہنمائی کریں اور ہمیں ایسے موزوں امیدوار بتائیں، جن کو خلائی پروگرام کا حصہ بنایا جا سکے۔ نشال کے بنائے گروپ میں ہی سیلی رائیڈ شامل تھیں، جن کو 1983ء میں امریکہ کی پہلی خلا باز خاتون بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔

گزشتہ 30 برسوں میں خلا میں جانے والی خواتین کی تعداد 70 سے تجاوز کر چکی ہے، جو کہ ابھی بھی خلا بازوں کی کل تعداد کا صرف دس فیصد ہے۔ اس کی ایک وجہ خلائی سائنس کے پہلے تیس چالیس برسوں میں خواتیں کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا بھی ہے۔

گزشتہ تین دہائیوں میں خواتین خلا بازوں نے بہت سارے کمالات دکھائے ہیں۔ سپیدس شٹل کی پائلٹ بھی رہیں اور بین الاقوامی خلائی سٹیشن کی کمانڈر بھی رہیں ہیں۔ بین الاقوامی خلائی ادارے کی ایک کمانڈر سمیتا ولیم بھی ہیں، جن کے والد کا تعلق بھارتی گجرات کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا۔

میرا خیال ہے کہ ہم، جتنی بھی ویڈیوز کی دیکھتے ہیں، ان میں دلچسپ ترین ویڈیو سمیتا ولیم کی ہے، جنہوں نے زمین پر واپس آنے سے قبل بین الاقوامی خلائی سٹیشن کی ایک تعارفی ویڈیو بنائی تھی۔ یہ ویڈیو یو ٹیوب پر دیکھی جا سکتی ہے۔ سمیتا ولیم کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ خلا میں چہل قدمی کے دورانیے کے تجربے کے حوالے سے ان کا نمبر پانچواں ہے۔ 

عورت کے حوالے سے تعصب بین الاقوامی ہے اور اس کا تعلق کسی مخصوص قبیلہ یا ثقافت سے براہ راست نہیں ہے بلکہ یہ ایک عمومی رویہ ہے اور یہی عمومی رویہ ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ تاریخ میں عورت نے کس قدر معتصبانہ رویے برداشت کیے ہیں بلکہ ہزاروں سال کے اس مسلسل ناروا سلوک نے عورتوں کو 'کنڈیشنڈ‘ کر دیا ہے۔

 گزشتہ پچاس برسوں میں کچھ واضح تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں ہیں۔ یہ تبدیلیاں اسی قدر ہیں کہ کہیں عورت کے حوالے سے تعصب کم ہوا ہے اور کہیں اب بھی زیادہ ہے لیکن تعصب اب بھی اپنی بھیانک شکل میں موجود ہے۔

صنفی تفریق کو جب سائنس کی نظر سے دیکھا جائے تو اہل عقل کے لیے اپنے اس متعصب رویے پر پشیمانی کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ کئی طویل المدتی سائنسی تحقیقات ہیں، جن کا نتیجہ یہ ہے کہ ریاضی میں عورتوں نے مردوں سے بہتر کارکردگی دکھائی۔

  اس کے کچھ ثبوت تو ہمارے سامنے ہیں کہ ناسا کے ابتدائی دنوں میں ماہر ریاضی دان کیتھرائین اور ان کے ساتھیوں کے کام کو دیکھ لیجیے۔ اس کام کی ایک جھلک دیکھنی ہو تو اس موضوع پر بنی فلم 'ہڈن فگرز‘ کو ضرور دیکھیے، جس کا موضوع وہ خواتین ہیروز ہیں، جنہوں نے نا سا کو آج کا ناسا بنایا۔

آپ کو خواتین کے حوالے تعصب کی مثال سائنس کی فیلڈ میں دینے کا مقصد یہ ہے کہ سائنس کی فیلڈ میں ہی ہمیں سب سے زیادہ عقلی اور متناسب رویے دیکھنے میں آتے ہیں۔ غور کیجیے کہ سائنس کے میدان میں خواتین کے ساتھ تعصب کی یہ حالت رہی ہے تو باقی شعبوں میں حالات کس قدر بدتر ہوں گے۔

یونیسکو کی حالیہ ایک رپورٹ 'یونیسکو سائنس رپورٹ‘ کے مطابق ابھی بھی سائنس کے میدان میں خواتین متعصب رویوں کا شکار ہیں۔ انجنئرنگ کی فلیڈ سے لے کر معتبر جرنلز میں تحقیقی مقالوں کی اشاعت تک، ہر جگہ واضح صنفی تعصب نظر آتا ہے۔

یوں اگر ایک زاویے سے دیکھیں تو گزشتہ پچاس برسوں میں متعصب رویوں کے حوالے سے آگہی میں فروغ ضرور نظر آتا ہے لیکن نفسیات میں تعصب کو دور کرنے کے لیے دو سطحیں درکار ہوتی ہیں۔ پہلی سطح پر ہم تعصب کو پہچانتے ہیں اور یہ بہت ہی اہم درجہ ہے جبکہ دوسری سطح پر تعصب کو دور کرنے کا بندوبست کیا جاتا ہے۔

 جب ہم صنفی تعصب کو دیکھتے ہیں تو شماریات یہی بتا رہی ہیں کہ ابھی ہم منزل سے بہت دور ہیں۔ اگر سائنس اور فلسفے کے میدانوں میں صنفی تعصب دیکھنے میں آ رہا ہے تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ باقی میدانوں میں حالات کس قدر دگرگوں ہیں۔ ابھی ریاست اور شہری کے لیے بہت سارے چیلنجز موجود ہیں۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں