مردہ بچوں کی پیدائش، افغان خواتین کے لیے سماجی مسئلہ
24 دسمبر 2011حسرت بی بی پہلی مرتبہ تب حاملہ ہوئی تھی، جب 22 برس قبل وہ ایک ٹین ایجر تھی۔ اس کی عمر اتنی کم تھی کہ غالباﹰ اس کا جسم نو ماہ تک ایک بچے کو نمو دینے کا حامل ہی نہیں ہوا تھا۔ تاہم وہ ایک ایسے معاشرے میں رہتی تھی، جہاں کسی عورت کا ماں بننا ہی اس کی زندگی کا مقصد گردانا جاتا ہے۔
افغانستان میں زچہ و بچہ کے حوالے سے تازہ اعداد و شمار انتہائی خوفناک ہیں۔ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں ہر دو گھنٹوں میں ایک خاتون حمل یا اس سے متعلق کسی پیچیدگی کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ اسی طرح ہر سو میں سے تین بچے مردہ حالت میں پیدا ہوتے ہیں۔ حسرت بی بی تیسری مرتبہ حاملہ ہوئی تو معاملہ طبی طور پر بہت پیچیدہ رہا۔ اس کی تناسلی نالی میں چھید ہو گیا اور وہ دوبارہ کبھی ماں بننے کے قابل نہ رہی۔
افغانستان میں ایک قومی سروے کے مطابق غیر ملکی امداد کی بدولت بہتر علاج معالجے کی سہولیات کی وجہ سے وہاں حاملہ خواتین کی شرح اموات میں خاصی کمی ہوئی ہے تاہم اب بھی افغانستان میں ہر ایک لاکھ میں سے پانچ سو خواتین اس عمل میں اپنی زندگی گنوا بیٹھتی ہیں۔
اب افغان انتظامیہ کو خدشات لاحق ہیں کہ گزشتہ دس برسوں سے افغانستان کی مسلسل امداد کے بعد صورتحال ایسی ہے تو غیر ملکی افواج کے انخلا اور عالمی امداد میں ممکنہ کمی کے بعد صورت حال کی سنگینی میں کس حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
حسرت بی بی نے اپنی پرنم آنکھوں کے ساتھ کہا کہ اب اسے نہ صرف معاشرے اور خاندان بھر نے چھوڑ دیا ہے بلکہ اس کا شوہر بھی اب اس سے بات نہیں کرتا۔ ’’میری یورین کی نالی میں چھید کی وجہ سے مجھ سے بو آتی ہے۔ اب کوئی عورت تو کیا بلکہ میرا شوہر بھی مجھ سے بات نہیں کرتا۔‘‘
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: مقبول ملک