1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مرد ساتھ دیں، راہنمائی نہ کریں

23 جولائی 2021

کوئی مرد اچھی نیت کے ساتھ اگر خواتین کے حقوق کے تحفظ کی بات کرے بھی تو اس عمل میں اس کی پدر شاہی تربیت آڑے آ جاتی ہے۔

DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

پدرشاہی نظام میں مردوں نے کس طرح کا رویہ ظاہر کرنا ہے، اس بات کا تعین ان کی تربیت ہی کرتی ہے۔ خواتین کے مسائل کو سمجھنے میں حساسیت کا نا ہونا ہی شاید سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاشرتی تربیتی ڈھانچے کو بدلا جائے، جو ’مرد کو درد نہیں ہوتا’  کی تربیت دیتا ہے اور خاتون کو  ’صنف نازک’  کا لبادہ اوڑھنے کا درس۔

مسئلہ تب ہی حل ہو سکے گا جب دونوں صنفیں ایک دوسرے کو انسان سمجھیں گی، نا کہ ایک دوسرے سے ماورا یا کم تر۔

یہ بات کچھ ایسے بھی کی جا سکتی ہے کہ آج کے جدید دور میں سوشل میڈیا پر یہ رویے کیسے دیکھے جا رہے ہیں۔ ٹویٹر کی ہی مثال لے لیں، جہاں حال ہی میں سپیس کا آپشن متعارف کروایا ہے۔

سپیس کو ایک طرح کا ورچوئل ڈرائنگ روم سمجھ لیجئیے۔ اس ڈرائنگ روم میں کوئی بھی آ سکتا ہے۔ وہ بھی جو آپ کو فالو کرتے ہیں اور وہ بھی جو آپ کو فالو نہیں کرتے۔ آپ اس ورچوئل نشست کے میزبان ہیں اور اس حیثیت میں آپ نشست میں کس بارے میں بات ہوگی اور یہ بات کون کرے گا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ آپ کے پاس چند مائیک ہیں جو آپ اپنی مرضی سے حاضرین میں سے کسی کو بھی دے سکتے ہیں۔ آپ جب چاہے کسی سے مائیک واپس بھی لے سکتے ہیں۔

پاکستانی ٹویٹر پر جو سپیس سیشن ہو رہے ہیں ان میں سے اکثر کا موضوع یا تو عورت ہوتی ہے یا کچھ دیر بعد بن جاتی ہے۔ عورت کیا ہے۔ کیوں ہے۔ کیا چاہتی ہے۔ کیوں چاہتی ہے۔ عورت مارچ کیوں ہوتا ہے۔ اصل فیمینزم کیا ہے اور نقلی فیمینزم کیا ہے۔ اور بھی جانے کیا کیا۔

ان موضوعات پر بات ہونا چاہیے لیکن یہ بات مرد کیوں کر رہے ہیں؟ آدمی ان موضوعات پر سپیس بناتے ہیں اور خود ہی ان پر بات شروع کر دیتے ہیں۔ ایک دو عورتوں کو مائیک پکڑاتے ہیں لیکن گفتگو کا کنٹرول اپنے پاس ہی رکھتے ہیں۔ بعض سپیس سیشنز میں کچھ مردوں نے عورتوں کو چپ کرواتے ہوئے کہا کہ وہ ان کے مسائل ان سے بہتر سمجھتے ہیں۔

ان سپیس سیشن کے بعد خواتین بھی سمجھ چکی ہیں کہ ”سیف سپیس" کا مسئلہ انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔ انہیں اپنے بارے میں بات کرنے کے لیے ایک محفوظ ماحول چاہیے اور وہ سپیس میں میسر نہیں آ سکتا۔ وہ اپنی سپیس خود بناتی ہیں اور اس پر لکھتی ہیں کہ مرد حضرات اس میں شرکت نہ کریں۔ مردوں کو اس پر بھی اعتراض ہوتا ہے کہ ہمیں کیوں شامل نہیں کیا جا رہا۔

جناب، آپ کو اس لیے شامل نہیں کیا جا رہا کہ آپ بحث میں شریک ہونا نہیں بلکہ اسے ہائی جیک کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کا علم اپنی جگہ لیکن معذرت کے ساتھ آپ عورت نہیں ہیں۔ آپ مرد کی زندگی گزار رہے ہیں، وہ بھی ایک ایسے معاشرے میں جہاں مرد کی حیثیت ایک حاکم کی ہے اور عورت کی محکوم کی۔ آپ کی تو دنیا ہی الگ ہے۔ آپ اپنی دنیا میں رہتے ہوئے عورت کی دنیا کو سمجھنے کا دعویٰ کس طرح کر سکتے ہیں؟

دو امریکی مصنفین ڈیوڈ سمتھ اور ڈبلیو بریڈ جانسن اپنی کتاب ”آدمی کام کی جگہ پر عورتوں کے اچھے ساتھی کس طرح بن سکتے ہیں" میں آدمیوں سے سوال پوچھتے ہیں کہ کیا وہ اچھے آدمی ہیں یا بس خود کو اچھا آدمی سمجھتے ہیں؟

وہ کہتے ہیں کہ آدمیوں کو جہاں عورتوں کے لیے بولنا چاہیے وہاں وہ چپ رہتے ہیں اور جہاں انہیں چپ رہنا چاہیے وہاں وہ بول کر خواتین کا نقصان کرتے ہیں۔ وہ اپنی اس کتاب میں مردوں کو کام کی جگہ پر عورتوں کے اچھے ساتھی بننے کے طریقے بتاتے ہیں۔  وہ لکھتے ہیں کہ مرد دفتر میں ایسی پالیسیوں کا مطالبہ کریں جو وہاں کام کرنے والے ہر انسان کے لیے مفید ہوں۔ کسی میٹنگ میں خاتون پر اس کی جنس کی بنیاد پر جملہ کسا جا رہا ہو تو اس کے ساتھ مل کر اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ دفتر میں بچوں کی نگہداشت کے یونٹ کے قیام کے حق میں بولیں۔ کسی پراجیکٹ میں خواتین کو شامل نہ کیا جا رہا ہو یا کسی پروموشن کے لیے کسی خاتون کو چھوڑ کر کسی مرد کا انتخاب کیا جا رہا ہو تو اپنا احتجاج نوٹ کروائیں۔

لیکن اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ آپ خواتین سے آگے جا کر کھڑے ہو جائیں۔ ان کے ساتھ کھڑے ہوں اور انہیں اپنی آواز بلند کرنے میں مدد دیں۔ اب آپ پوچھیں گے کیوں۔ تو اس کی وجہ سادہ سی ہے۔ پدرشاہی معاشرے میں مرد کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ ایسے معاشروں کی تبدیلی کے عمل میں بھی مردوں کا ساتھ ضروری ہوتا ہے۔ مردوں کو اپنی حیثیت پہچانتے ہوئے اس عمل کا حصہ بننا چاہیے لیکن اس دوران انہیں اس نظام کے تحت ملی ہوئی طاقت کو بھی چھوڑنے کی ضرورت ہے۔

پدرشاہی مرد کو بتاتی ہے کہ وہ عقلِ کُل ہیں۔ پوری دنیا کا بوجھ انہی کے کاندھوں پر ہے۔ مردوں نے ہی سب کے لیے فیصلے کرنے ہیں۔ مرد کو اس سوچ سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اس سے عورتوں سے زیادہ مردوں کا اپنا فائدہ ہوگا۔

مرد عورتوں کا دکھ محسوس کرتے ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو ایسا ان کے ساتھی بن کر کریں۔ عورتوں کے حقوق کی تحریک مردوں کے بغیر ادھوری ہے۔ مردوں کو اس میں شامل ہونا چاہیے لیکن ایک ساتھی کے طور پر۔ راہنمائی کا کام عورتوں پر چھوڑ دیں۔ وہ بہتر جانتی ہیں کہ ان کے مسائل کیا ہیں اور ان کو کس طرح حل کیا جا سکتا ہے۔ انہیں یہ کام خود کرنے دیں۔

پاکستان میں 'عورت گردی' کیوں؟

07:00

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں