1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مرد کسی عورت کو عریاں تصاویر کیوں بھیجتے ہیں؟

22 فروری 2020

یہ ایک عام رویہ بنتا جا رہا ہے کہ خواتین کو اکثر و بیشتر دوستی کے خواہش مند حضرات کی جانب سے عریاں تصاویر موصول ہوتی ہیں۔ سائنسی بنیاد پر ایسی تصاویر بے اثر ہوتی ہیں لیکن اب نئی ریسرچ نے چند اور پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔

Schreckensnachricht empfangen Symbolbild
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Klose

حال ہی میں فرانسیسی سیاست میں ایک سیکس اسکینڈل کی وجہ سے بھونچال کی کیفیت رہی ہے۔ دارالحکومت پیرس کے میئر کے الیکشن میں صدر ماکروں کے حمایت یافتہ امیدوار بینجمن گریوو کو جنسی الزام کی وجہ سے دستبرداری اختیار کرنا پڑی۔ اس ویڈیو میں وہ خودلذتی کرتے ہوئے دکھائے گئے تھے۔ گریوو نے ابھی تک ویڈیو کے درست یا غلط ہونے کے بارے میں کوئی بیان نہیں دیا ہے۔

ڈیجیٹل دور میں ایسی عریاں تصاویر یا ویڈیوز خواتین کو روانہ کرنا ایک عام رویہ بن چکا ہے۔ ایسی تصاویر کے لیے 'ڈِک پکس‘ یا 'سائبر فلیشنگ‘ کی اصطلاحات رواج پا چکی ہے۔ سن 2017 میں کیے گئے برطانوی سروے کے مطابق اٹھارہ سے پینتیس برس کی ترپن فیصد خواتین کو ایسی غیر مناسب تصاویر موصول ہوئیں جب کہ پینتیس سے چون سال کی عمر کی عورتوں کو ایسی تصاویر بھیجنے کا تناسب چونتیس فیصد تھا۔

نامعلوم شناخت کے ساتھ مرد حضرات کسی بھی جگہ سے کسی خاتون کو فحش تصویر روانہ کرنے سے گریز نہیں کرتےتصویر: picture-alliance/empics/K. O'Connor

ایسی تصاویر موصول کرنے والی چار میں سے تین خواتین کا موقف ہے کہ انہیں یہ عریاں تصاویر ان کی رضامندی کے بغیر بھیجی گئیں۔ سن 2019 میں کینیڈا میں ایک ریسرچ مکمل کر کے اُس کے نتائج عام کیے گئے ہیں۔ یہ پہلی تحقیق تھی جس میں عریاں تصاویر بھیجنے والے اشخاص کی نیت، ارادے اور خواہشات کا مطالعہ کیا گیا۔ اعداد و شمار سے یہ تاثر ابھرا ہے کہ سائبر فلیشنگ کرنے والے لین دین کی ذہنیت (Transactional Mindset) کے حامل ہوتے ہیں۔

ایسی ذہنیت کے افراد یہ توقع کرتے ہیں کہ عریاں تصویر بھیجنے کے بعد وہ بھی ایسی ہی کوئی تصویر وصول کریں گے یا خاتون کے ساتھ ربط بڑھنے کا امکان ہو سکتا ہے۔ اس سلسلے میں تقریباً گیارہ سو افراد کے انٹرویوز کیے گئے اور ان کی شناخت مخفی رکھی گئی کیونکہ وہ یہ حرکات نامعلوم رہتے ہوئے کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ جواباً تصویر کی توقع کرتے تھے۔

بغیر کسی کی رضامندی کے فحش تصاویر ارسال کرنا فوجداری جرم ہےتصویر: picture-alliance/dpa/M. Becker

یہ بھی معلوم ہوا کہ نامعلوم رہتے ہوئے عریاں تصویر بھیجنے والے دوست یا پارٹنز کی تلاش میں بھی ہوتے ہیں۔ چھ جواب دینے والوں کے رویے سے معلوم ہوا کہ اُن کا تصویر روانہ کرنا اصل میں اُن کے ذہنی خلل یعنی خود پسندی یا نرگسیت کے ساتھ ساتھ سیکس کی طرف مائل ہونا ہے۔ خواتین سے بیزاری رکھنے والے انتہائی کم تعداد میں اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق تمام انٹرویوز سے معلوم ہوا کہ ایسا کرنے والے عدم رہنمائی کے شکار ہوتے ہیں اور ان میں نسائی نفرت کے جذبات موجود نہیں ہوتے۔

سن 2019 میں ایک خاتون ریسرچر مویا سارنر نے بھی برطانوہی اخبار گارڈین کے لیے کم و بیش ایسی ہی ریسرچ مکمل کی تھی اور ان کے نتائج بھی کینیڈن ریسرچ سے ملتے جلتے تھے۔ نام مخفی رکھنے کی شرط پر مختلف مردوں نے ریسرچر مویا سارنر کو عریاں تصاویر بھیجنے کی کوئی ٹھوس وجہ تو نہیں بتائی لیکن زیادہ تر کو امید تھی کہ ایسا کرنے سے وہ کسی خاتون کو اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ساشا شؤلر (ع ح ⁄ ش ح)

فحش مواد کی فروخت کے خلاف جنگ

01:28

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں