1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مرسی کے خلاف ‘دہشت گردی‘ کا مقدمہ

امتیاز احمد19 دسمبر 2013

مصر کے معزول صدر محمد مرسی کے خلاف ’دہشت گردی‘ کا مقدمہ چلایا جائے گا۔ ان پر قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے اور غیر ملکی شدت پسند تنظیموں سے ساز باز کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

تصویر: Khaled Desouki/AFP/Getty Images

مصر کے وکیل استغاثہ کا کہنا تھا کہ محمد مرسی اور اخوان المسلمون کے دیگر اعلیٰ رہنماؤں کے خلاف ایک نیا مقدمہ چلایا جائے گا۔ استغاثہ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ محمد مرسی نے فلسطینی تنظیم حماس، لبنان کی حزب اللہ، ایرانی پاسداران انقلاب اور دیگر عسکری گروپوں کے ساتھ مل کر سازش کی تاکہ دہشت گردانہ کارروائیوں سے ملک کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔

استغاثہ کے ایک بیان کے مطابق مرسی اور دیگر پینتیس رہنماؤں نے ایک ’بین الاقوامی دہشت گرد نیٹ ورک‘ تشکیل دیا، جس کے خطے کے دیگر جہادی گروپوں سے بھی روابط تھے۔ مصر کے ایک سینئر فوجی عہدیدار کا نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کے پاس مبینہ طور پر اس گفتگو کی ریکارڈنگ بھی موجود ہے، جو دورہء پاکستان کے دوران محمد مرسی اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں کے معاونین کے مابین ہوئی۔

ان اسلام پسند رہنماؤں کے خلاف عائد کیے جانے والے یہ اب تک کے سنگین ترین الزامات ہیں، جن کے ثابت ہونے کی صورت انہیں سزائے موت بھی سنائی جاسکتی ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق مصر کی موجودہ حکومت نے اخوان المسلمون کے اعلیٰ عہدیداروں پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے تاکہ انہیں آہستہ آہستہ مفلوج کر دیا جائے۔

اخوان المسلمون کے ان رہنماؤں کے خلاف نئے مقدمے کا آغاز ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے، جب جنوری میں نئے ملکی آئین سے متعلق ایک ریفرنڈم کرایا جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق فوج کی حمایت یافتہ حکومت آئین کے اُس چارٹر میں تبدیلیاں لانے کی کوشش کرے گی، جس کا مسودہ مرسی کی اسلام پسند حکومت نے تیار کیا تھا۔ نئی حکومت آئندہ ریفرنڈم میں آئینی تبدیلیوں کے لیے عوامی سطح پر ’’ہاں‘‘ کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

محمد مرسی کی معزولی کے بعد سے مصر مسلسل بے امنی کا شکار ہے۔ اخوان المسلمون کے حامی تقریباﹰ ہر روز ہی احتجاجی مظاہروں کا انعقاد کر رہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز نے بھی اسلام پسندوں کے خلاف اپنا کریک ڈاؤن جاری رکھا ہوا ہے اور ہزاروں افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ سکیورٹی فورسز اور ملکی اقلیتوں پر بھی حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔

استغاثہ کی طرف سے الزام عائد کیا گیا ہے کہ اخوان المسلمون 2005ء ہی سے ’دہشت گرد گروپوں‘ کے ساتھ ساز باز کا عمل جاری رکھے ہوئے تھی تاکہ کسی نہ کسی طریقے سے حکومت میں آیا جا سکے۔ اس تازہ مقدمے کا تعلق 2011ء میں سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف تحریک کے دوران جیل توڑنے کے ایک واقعے سے بھی ہے۔ استغاثہ کا موقف ہے کہ جیل توڑنے کے اس واقعے میں فلسطینی اور لبنانی شدت پسند گروپ ملوث تھے۔ حکومتی وکیل کا کہنا تھا، ’’مصر کی تاریخ میں سازش کا سب سے بڑا کیس فوجداری عدالت میں چلایا جائے گا۔‘‘

اخوان المسلموں کے وکیل صفائی محمد الدماطی نے اس نئے مقدمے کی مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سرا سر ’سیاسی مقدمہ‘ ہے اور حکومت اپنے پر تشدد کریک ڈاؤن کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں