مرغی کا گوشت، اینٹی بائیوٹک مزاحمت والے جراثیم کی موجودگی
18 اپریل 2019
ماہرین کا خیال ہے کہ مرغی کے گوشت میں اینٹی بائیوٹک کا استعمال انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ مرغی کی صنعت میں اینٹی بائیوٹک کے استعمال نے انسانوں کے لیے صحت کے شدید خطرات پیدا کر دیے ہیں۔
اشتہار
ماحول دوست اور صارفین کے حقوق کی نگران تنظیم جرمن واچ نے ملک کے اندر سپر مارکیٹوں میں مرغی کے سستے گوشت میں اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے والے بیکٹریا کی موجودگی پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ تنظیم نے ایسے گوشت کے نمونوں کے لیبارٹری ٹیسٹس کے نتائج کی روشنی میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ جرمن واچ کے مطابق ان مارکیٹوں میں نصف سے زائد دستیاب گوشت مضر صحت ہے۔
جرمن واچ کے مطابق مرغی کے گوشت کے مختلف انسٹھ نمونے رعایتی مارکیٹوں سے حاصل کرنے کے بعد اِن کا یونیورسٹی کی لیبارٹری سے تجزیہ کرایا گیا۔ ان نمونوں میں سے چھپن فیصد میں ایسے جراثیم کی موجودگی پائی گئی، جو اینٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت رکھتے ہیں۔ یہ مرغی کا گوشت جرمنی کے اندر واقع چار سب سے بڑے مذبح خانوں (سلاٹر ہاؤسز) نے فراہم کیا تھا۔
جرمن واچ کے مطابق لیڈل، نیٹو، ریال، آلڈی اور پینی سے حاصل کیے گئے مرغی کے گوشت کے ایک تہائی نمونوں میں اینٹی بائیوٹک مزاحمت رکھنے والے بیکٹریا کی موجودگی پائی گئی۔ ’ریزرور اینٹی بائیوٹک‘ کو پہلے سے مستعمل اینٹی بائیوٹک کی چوتھی اور پانچویں نسل قرار دیا جاتا ہے اور یہ سُپر بگ بیکٹیریا کے خلاف عمل کرنے کی آخری دوا ہوتی ہے۔
دوسری جانب جرمنی کی وزارت زراعت نے اس ریسرچ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ پولٹری انڈسٹری میں اینٹی بائیوٹک کا کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ انسانوں میں بیٹکریا کو ختم کرنے کی اینٹی بائیوٹک ادویات کے اثرات میں کمی واقع ہوئی ہے۔
ماہرین حیاتیات کے خیال میں جتنا زیادہ اینٹی بائیوٹک کا استعمال مرغی میں کیا جائے گا، اتنی ہی بیکٹریا میں مزاحمت پیدا ہو گی اور انجام کار یہ انسانی صحت کے لیے شدید خطرے کا سبب بنے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مرغی کے گوشت کو اچھی طرح پکانے سے اُس میں موجود بیکٹیریا ہلاک ہو جاتا ہے لیکن کم پکے ہوئے گوشت میں موجود بیکٹریا سے کوئی بھی انسان شدید بیمار ہو سکتا ہے یا پھر یہ بیماری شدت اختیار کرتے ہوئے مریض کو موت کے منہ میں لے جا سکتی ہے۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گوشت کاٹنے والے بورڈ پر بھی ایسا سپر بگ بیکٹریا رہ سکتا ہے اور یہ بھی انسانی جان کے لیے مضر ہوتا ہے۔ اسی طرح پولٹری کے فارم پر کام کرنے والے ورکرز بھی ایسے بیکٹریا کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ان میں یہ بیکٹریا سانس لینے سے داخل ہو سکتا ہے۔
ناپید ہونے والے پکوان، تحفظ کی کوششیں
’آرک آف ٹیسٹ‘ نامی ایک تنظیم دنیا میں ناپید ہونے کے خطرے کے شکار روایتی پکوانوں اور مختلف ذائقوں کو بچانے کی کوشش میں ہے۔ اس نے اب تک اپنی فہرست میں بتدریج ناپید ہونے والی ایسی پانچ ہزار اشیائے خوراک شامل کر رکھی ہیں۔
تصویر: Alberto Peroli
روایتی پکوان کو محفوظ کرنے کی کوشش
مختلف معاشرتوں میں خوراک اور اُس کی تیاری کے ساتھ دادی یا نانی کا تعلق بہت گہرا خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ تعلق اب کسی حد تک کمزور ہونے لگا ہے۔ آرک آف ٹیسٹ کیٹلاگ میں کثیر الجہتی پائی جاتی ہے۔ یہ مختلف پکوانوں کو تیار کرنے کے روایتی طریقوں کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے اور بعض کو کمرشل بنیادوں پر مارکیٹ کرنے کا منصوبہ بھی مرتب کیا گیا ہے۔
تصویر: Alberto Peroli
آپ کی کون سی پسندیدہ ڈِش ہے؟
آرک آف ٹیسٹ کی کیٹلاگ میں دنیا بھر کے ہزاروں روایتی کھانے درج کیے گئے ہیں اور یہ وہ ہیں جن کو کھانے والے بہت کم رہ گئے ہیں یا ان کے پکانے کا روایتی طریقہ اب عوام و خواص کو بھولتا جا رہا ہے۔ ذائقے محفوظ رکھنے والی اس تنظیم کی کوشش ہے کہ زمین پر بسنے والے انسانوں کی معاشرت کے مخصوص پکوان ’فاسٹ فوڈ‘ کے سیلاب میں غرق نہ ہو جائیں۔
تصویر: Paola Viesi
شہد کی ناپید ہوتی قسم
دنیا بھر میں شہد کی کئی اقسام کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وہ یا تو معدوم ہو چکی ہیں یا ہونے کے قریب ہیں۔ ایسا ہی برکینا فاسو کے ٹاپوا علاقے کا شہد خاص پودوں کے جوس سے حاصل کیا جاتا ہے۔ یہ آبِ حیات کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ خاص رس شہد کی مکھیاں مختلف علاقائی پودوں سے حاصل کرتی ہیں۔ یہ شہد دوا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ آرک آف ٹیسٹ کی کیٹلاگ میں ترتیب کے اعتبار سے اس شہد کا پانچ ہزارواں نمبر ہے۔
تصویر: Slow Food Archive
پہاڑوں کے دامن سے: خاص پنیر
ناروے کے پہاڑی علاقوں کی چٹانی کھاڑیوں میں ایک ایسا گاؤں ہے، جہاں صرف ایک سو افراد آباد ہیں اور اُن کی ملکیت میں پانچ سو بکریاں ہیں۔ یہ لوگ بکری کے دودھ سے روایتی طریقے سے پنیر تیار کرتے ہیں۔ یہ تازہ دودھ سے تیار کیا جاتا ہے۔ بکری کے دودھ میں گائے کے دودھ کی آمیزش سے پنیر بنانے کا ابتدائی عمل شروع ہوتا ہے۔ دودھ آٹھ سے دس گھنٹے تک ابالا جاتا ہے۔ اس چیز کو بھی محفوظ بنانے کی کاوش کی گئی ہے۔
تصویر: Slow Food Archive
مچھلی خشک کرنے کے روایتی طریقے کی محافظ خواتین
شمالی افریقہ اور یورپ میں مچھلیاں منتقل کرنے والے بحری جہاز سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر ماہی گیری کے سبب ماریشس کے قریبی سمندری علاقے میں مچھلی وافر مقدار میں نہیں ملتی اور یہاں کے لوگوں کی من پسند خواک میں کمی ہونے لگی ہے۔ ماریشس کی خواتین مچھیروں سے مچھلیاں خرید کر انہیں رواتی طریقے سے دھو کر نمک لگاتی ہیں اور پھر انہیں قدرتی طور پر خشک ہونے دیا جاتا ہے۔ یہ خشک مچھلی لذت میں لاجواب ہے۔
تصویر: Paola Viesi
مملکت المغرب کا سرخ سونا
شمالی افریقی مسلمان ملک مراکش کوعربی میں مملکت المغرب ہے اور اس کے ایک شہر کا نام مراکش ہے۔ اس علاقے کے سطح مرتفع سوکتانا میں زعفران کی نایاب قسم کاشت کی جاتی ہے۔ یہ زعفران چھوٹے رقبوں پر گیارہ مختلف افراد اور ان کا خاندان کاشت کرتے ہیں۔ اس علاقے میں زعفران کے پھول کی بند پتیاں اکتوبر اور نومبر میں نمودار ہوتی ہیں اور بیش قیمت زعفرانی نازک ڈنٹھل انہی نیم کھلے پھولوں کے اندر سے حاصل کیا جاتا ہے۔
تصویر: Oliver Migliore
قیمتی ونیلا
مڈغاسکر میں فرانسیسیوں نے ونیلا متعارف کرایا تھا۔ اب یہی ملک ونیلا کی پیداوار میں سبقت لیے ہوئے ہے۔ اس جزیرے کے شمالی مانانارا علاقے کے بارانی جنگلات اس کی پیداوار کے لیے مشہور ہیں۔ کسان اپنے ہاتھوں سے ستمبر سے جنوری کے درمیان ہر خشک دن پر اس خاص ونیلا کی کاشت کرتے ہیں۔
تصویر: Paola Viesi
دیو گندم، موسم سرما کا بہترین اناج
جنوبی آسٹریا کی لیساشتال وادی مختلف القسم کے اناج کے لیے مشہور ہے۔ اس وادی میں چار ہزار برسوں سے مختلف اناج کی کاشت کی جا رہی ہے۔ اس میں رائی یا دیوگندم کو خاص فوقیت حاصل ہے۔ اس علاقے کی شدید سردی کو رائی ہی برداشت کرتی ہے۔ لیساشتال وادی میں اسی دیوگندم کی روٹی تیار کر کے کھائی جاتی ہے۔ یہ ان لوگوں کی من پسند روٹی ہے۔
تصویر: wolfganghummer
چائے کی کاشت اور پھر صبر سے نگہداشت
ڈون چائے کوئی عام سی چائے نہیں بلکہ خمیرے ذائقے والی یہ سبز چائے انتہائی نگہداشت اور احتیاط کے ساتھ جنوبی کوریا کے جنوبی مغربی علاقے ژانگ ہیونگ میں تیار کی جاتی ہے۔ اس چائے کو نہایت مہارت کے ساتھ تیار کر کے رکھ دیا جاتا ہے اور مسلسل چھ ماہ تک کڑی نگرانی کرنا پڑتی ہے۔ کئی کسانوں نے اس چائے کا ذخیرہ پچھلے بیس برسوں سے بھی کر رکھا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پرانی چائے کا لطف وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔