ناسا کا کہنا ہے کہ اس کے روبوٹک مشن نے مریخ پر بہ ظاہر زلزلے کے جھٹکے ریکارڈ کیے ہیں۔ اگر اس زلزلے کی تصدیق ہو جاتی ہے، تو زمین اور چاند کے بعد مریخ وہ پہلا سیارہ ہو گا، جہاں انسان نے زلزلہ ریکارڈ کیا۔
اشتہار
امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا نے گزشتہ برس نومبر میں ’اِن سائیٹ‘ نامی روبوٹک مشن مریخ پر اتارا تھا، جو اپنے اوزار اور آلات کی مدد سے مریخ کی قشتر سے نیچے کی معلومات جمع کر رہا ہے۔
منگل کے روز ناسا کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ چھ اپریل کو ان سائیٹ مشن نے سرخ سیارے پر زلزلے کی ’’رمبل لہر‘ ریکارڈ کی۔ رمبل آواز کسی ہلکی سی ہوا کے جھونکے جیسی تھی، تاہم سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ لہر اس سیارے پر ہونے والی ایک زلزلزلیاتی تحریک کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔
پیرس انسٹیٹیوٹ آف ارتھ فزکس سے وابستہ فیلپ لوگنون، جو اس تجربے کے قیادت کر رہے ہیں، نے بتایا کہ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مریخ زلزلزیاتی طور پر متحرک ہے۔ لوگنون کا کہنا تھا، ’’ہم نے کئی ماہ سے اس سگنل کا انتظار کر رہے تھے۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ مریخ زمین کے مقابلے میں ارضیاتی طور پر بہت کم متحرک ہے کیوں کہ اس پر ٹیکٹونک پلیٹیں کم ہیں۔ زمین پر موجود ٹیکٹونک پلیٹیں زلزلوں کا باعث بنتی ہیں۔
ان سائیٹ کے مریخ پر اترنے کے لمحات
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters/M. Blake
5 تصاویر1 | 5
ناسا کے اِن سائیٹ مشن اور جیٹ پروپلشن لیبارٹری کیلی فورنیا سے وابستہ بروس بینرڈٹ کے مطابق نصف صدی قبل چاند پر زلزلوں کو ماپنے کے لیے نصب کیے جانے والے سینسر ہی مریخ پر بھی نصب کیے گئے۔ چاند پر سن 1969 سے 1972 کے دوران جانے والے مختلف اپالو مشنز نے وہاں زلزلے ریکارڈ کرنے کے لیے لو اور ہائی فریکونسی ڈیکٹکٹر نصب کیے تھے، جو تب سے اب تک ہزاروں زلزلوں کی نشان دہی کر چکے ہیں۔
بینرڈٹ نے بتایا، ’’ہم مریخ پر مسلسل بیک گراؤنڈ شور سن رہے تھے، مگر یہ پہلا موقع ہے، جب ہم اس نئے میدان میں اتر چکے ہیں، یعنی مریخ کی ارضیات۔‘‘
اس تحقیق سے یہ معلوم ہو گا کہ مریخ کس طرح وجود میں آیا اور چٹانی سیارے کس طرح پیدا بنتے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ اِن سائیٹ مریخ میں گہرائی تک کھود کر معلومات حاصل کرنے کے مشن پر روانہ کیا گیا ہے اور وہ اگلے دو برس تک مریخ سے یہ غیرمعمولی معلومات روانہ کرتا رہے گا۔