1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مریخ پر زندگی تھی؟ نئی بحث

23 نومبر 2012

ناسا کے ایک ترجمان نے مریخ مشن کے عنقرب زمین پر واپس پہنچنے والے ڈیٹا کے حوالے سے زیادہ توقعات وابستہ کرنے سے خبردار کیا ہے۔ اس سے پہلے اس سرخ سیارے پر کبھی زندگی کے وجود کے حوالے سے شواہد ملنے کی امید پیدا ہوئی تھی۔

تصویر: picture-alliance/dpa

دو سال کے لیے سرخ سیارے مریخ کی جانب جانے والے مشن کیوروسٹی کو اب تین مہینے پورے ہونے والے ہیں۔ اس مشن کا بنیادی مقصد اسی بات کا تعین کرنا ہے کہ آیا اس سیارے پر کبھی مائیکروبل زندگی یعنی زندگی کے بنیادی ترین آثار کے لیے حالات سازگار تھے۔

ناسا مشن کے سربراہ کے بیانات سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کہ شاید اس مشن نے کچھ ایسے شواہد ڈھونڈ نکالے ہیں، جو ثابت کرتے ہیں کہ کبھی اس سرخ سیارے پر زندگی کا وجود ہوا کرتا تھا تاہم اب ناسا نے مریخ سے عنقریب واپس زمین پر پہنچنے والے ڈیٹا کے بارے میں زیادہ خوش امیدی سے خبردار کیا ہے۔

مریخ پر موجود اس مشن کے آلات، جنہیں سیمپل انیلیسس ایٹ مارس (SAM) کا نام دیا گیا ہے، اس سرخ سیارے پر میتھین، ہائیڈروجن، آکسیجن اور نائٹروجن جیسی گیسوں کا سراغ لگانے میں مصروف ہیں۔ ان گیسوں کی موجودگی کا مطلب یہ ہو گا کہ کبھی یہاں پر زندگی کا وجود ہوا کرتا تھا۔

امریکی نشریاتی ادارے نیشنل پبلک ریڈیو کے ساتھ رواں ہفتے منگل کو نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں مشن کے سربراہ جان گروٹزنگر نے کسی انتہائی اہم دریافت کی جانب اشارہ کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ اس بارے میں کئی ہفتوں تک کوئی اعلان متوقع نہیں ہے۔ انہوں نے کہا تھا:’’ہمیں SAM کی جانب سے ڈیٹا موصول ہو رہا ہے۔ یہ ایسا ڈیٹا ہو گا، جو تاریخ کی کتابوں میں درج ہونے کے قابل ہو گا۔ ہم بہت ہی پُر امید ہیں۔‘‘

تاہم اس انٹرویو کے رد عمل میں ایک ہی روز بعد بدھ کو ناسا کی جیٹ پروپلشن لیباریٹری کے ایک ترجمان گائی ویبسٹر نے جو بیان دیا، وہ جان گروٹزنگر کی مثبت توقعات کو رَد کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے گائی ویبسٹر نے کہا:’’اُس روز جب ایک رپورٹر جان کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا، تو جان SAM کی جانب سے آنے والے ڈیٹا کی کوالٹی اور مقدار پر بہت خوش تھا لیکن وہ پہلے بھی ایسے مواقع پر خوشی کا اظہار کر چکا ہے۔‘‘

کیوروسٹی سی لی گئی مريخ کی سطح کی ايک تصويرتصویر: picture-alliance/dpa

ویبسٹر نے کہا:’’سائنسدان اپنی دریافتوں کو اپنی سائنس ٹیم سے باہر لے جانے سے پہلے اُن کے بارے میں خود پُر اعتماد ہونا چاہتے ہیں۔ جہاں تک تاریخ کی کتابوں کا سوال ہے تو یہ پورا مشن پہلے ہی تاریخ کی کتابوں میں جگہ پا چکا ہے۔‘‘

اگرچہ یہ بات طے ہے کہ سائنسدان مریخ پر کسی غیر ارضی مخلوق کی موجودگی کی توقع نہیں کر رہے تاہم اُنہیں یہ امید ضرور ہے کہ مریخ کی سطح سے حاصل کیے گئے نمونوں سے انہیں یہ پتہ چل سکے گا کہ آیا وہاں ماضی میں کسی طرح کی زندگی کے آثار تھے یا نہیں۔

2.5 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی کیوروسٹی گاڑی چھ اگست کو مریخ کے گیل کریٹر میں اتری تھی۔ اس مشن کا مقصد آنے والے برسوں میں مریخ پر ایک ممکنہ انسان بردار مشن کی بھی تیاریاں کرنا ہے۔ امریکی صدر باراک اوباما اس عزم کا اظہار کر چکے ہیں کہ سن 2030ء تک ایک انسان بردار مشن مریخ کی جانب روانہ کیا جائے گا۔

aa/as (AFP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں