مریخ کا ایک تہائی حصہ ’پانی‘ پر مشتمل تھا، تحقیق
27 جون 2010رپورٹ کے مطابق مریخ کے شمالی قطب پر بحر اوقیانوس کے حجم کے برابر پانی کا ذخیرہ موجود رہا ہے، جس میں موجود پانی کی مقدار زمین پر پائے جانے والے کل پانی کے دسویں حصے کے برابر تھی۔
کئی دہائیوں سے سائنسدان اس بات پر بحث ومباحثہ کر رہے تھے کہ کیا مریخ پر کبھی اس قدر پانی موجود رہا ہے، جو ہائیڈرولوجیکل سائیکل یعنی بخارات بننے اور پھر ان سے بارش برسنے کے عمل کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ تازہ ترین معلومات سے اس مفروضے کو تقویت ملتی ہے تاہم ابھی بھی حتمی طور پر یہ ثابت ہونا باقی ہے۔
مریخ پر پانی کی موجودگی کے معاملے پر تفصیلی تحقیق کے لئے امریکہ کی کولوراڈو یونیورسٹی کے پروفیسروں گیتانو دی آکِیلے اور برائن ہائنِک نے ناسا کے مریخ کے بارےمیں تفصیلات جمع کرنے والے مشن MOLA یعنیMars Orbiter Laser Altimeter کی طرف سے 1990ء کی دہائی کے آخر میں حاصل کردہ تصاویر کے علاوہ یورپی اور امریکی خلائی سیاروں سے حاصل کردہ معلومات کا بھی تفصیلی مشاہدہ کیا۔
گوکہ یہ جمع شدہ معلومات نسبتا پرانی ہیں مگر دونوں محققین نے پہلی مرتبہ مریخ کی سطح کے بارے میں دستیاب تمام حقائق کو ایک کمپیوٹر ماڈل میں یکجا کر دیا۔
جیوسائنس نامی تحقیقی جریدے میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق نظام شمسی کے اس سیارے پر 52 دریاؤں کے نشانات پائے گئے۔ ان میں سے آدھے سے زائد قریباﹰ ایک ہی بلندی پر واقع تھے، جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یہ ایک بڑے سمندر کے نشانات ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یا تو یہ نشانات براہ راست سمندر کی نشاندہی کرتے ہیں یا پھر یہ آپس میں ملی ہوئی مختلف بڑی بڑی جھیلوں کی وجہ سے بنے ہیں۔
محققین نے اعدادوشمار سے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ 3.5 ارب سال پہلے کے اس سمندر کا رقبہ مریخ کے کل رقبے کا 36 فیصد تھا جبکہ اس میں پانی کی مقدار 124 ملین کیوبک کلومیٹر تک رہی تھی۔
سائنسدانوں کے مطابق زمین پر بھی یک خلیاتی جانداروں کی شکل میں زندگی کا آغاز قریب 3.5 ارب سال پہلے ہی ہوا تھا۔ ان کے خیال میں مریخ پر بھی زمین ہی کی طرح کا ہائیڈرولوجیکل سائیکل موجود تھا، جس میں سمندر سے بخارات کی صورت میں پانی کا بادلوں کی شکل میں تبدیل ہونا، بارشوں کا برسنا، برف کا جمنا اور سطح زمین کے نیچے پانی کا موجود ہونا وغیرہ شامل تھا۔
اسی موضوع پر ایک اور تحقیقی جریدے ’پلانٹس‘ میں ہائنک اور ان کے ساتھیوں نے مریخ پر 40 ہزار کے قریب ایسی وادیوں کی نشاندہی کی ہے جو دریاؤں کی وجہ سے وجود میں آئیں۔ ہائنک کے مطابق دریائی وادیوں کی اتنی کثیر تعداد میں موجودگی دراصل اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ وہاں بہت زیادہ بارشیں ہوتی تھیں۔
تاہم گیتانو دی آکِیلے کے مطابق ابھی بھی بہت سی باتیں جواب طلب ہیں۔ مثلاﹰ سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ آخر یہ سارا پانی کہاں گیا؟
امید کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں مریخ کی جانب بھیجے جانے والے خلائی مشن شاید ان سوالوں کے جواب دے پائیں گے۔ انہی مشنوں میں سے ایک ناسا کا 485 ملین ڈالر مالیت کا ایک مشن بھی شامل ہے، جو سال 2013ء میں مریخ کی طرف بھیجا جائے گا۔ اس مشن کو MAVEN یعنی Mars Atmosphere and Volatile Evolution mission کا نام دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے نئی تحقیق سے شاید ابتدائی سمندری حیات کے بارے میں بھی کوئی سراغ مل سکے۔ دی آکِیلے کے مطابق زمین پر تو دریائی ڈیلٹا اور جھیلیں قدیم زندگی کے بارے میں نہایت اہم معلومات لئے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مریخ پر اگر کبھی زندگی رہی ہے، تو وہاں موجود دریائی ڈیلٹاؤں سے اس کا سراغ ملنے کے قوی امکانات ہوں گے۔
یورپی خلائی ایجنسی ESA اور امریکی خلائی تحقیقی ادارے ناسا نے ایک ہی طرح کی لیکن الگ الگ پیش گوئیاں کی ہیں کہ زمین کے نظام شمسی کے اس سرخ سیارے کی طرف پہلی انسان بردار پرواز اگلی تین دہائیوں میں روانہ کی جا سکتی ہے۔ مریخ کا زمین سے فاصلہ 55 ملین کلومیٹر سے لے کر 400 ملین کلومیٹر تک ہوتا ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: مقبول ملک