مریم نواز کی گرفتاری سے ’عالمی سطح پر بہت غلط پیغام گیا‘
8 اگست 2019اس گرفتاری کے بعد پاکستان کی پارلیمنٹ میں بھی احتجاجی مناظر دیکھے گئے، اپوزیشن ارکان نے اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کر لیا، شیم شیم کے نعرے لگائے اور اجلاس سے واک آؤٹ کر گئے۔ اس سارے شور شرابے کے باعث اسپیکر کو اجلاس اگلے روز تک کے لیے ملتوی کرنا پڑا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو نے مریم نواز کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ یہ بات یاد رکھے کی کہ انصاف کی بات کرنے والے عمران خان کے دور میں خواتین کے خلاف کارروائیاں ہوئیں۔ بلاول بھٹو نے وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگرلڑنا ہے تو مردوں کے ساتھ لڑو۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کا موقف تھا کہ مریم نواز کو کشمیریوں کے حق میں ریلیاں نکالنے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ یاد رہے مریم نواز 15 اگست کو مظفرآباد میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے بھی خطاب کرنے والی تھیں۔ شہباز شریف نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ یہ کیسا احتساب ہے کہ گرفتاری بعد میں ہوتی ہے لیکن خبر پہلے آ جاتی ہے۔
اس سے پہلے رانا ثنااللہ، شاہد خاقان عباسی، حمزہ شہباز شریف ،خواجہ سعد رفیق،اور خواجہ سلمان رفیق سمیت پاکستان مسلم لیگ نون کے متعدد رہنما پابند سلاسل ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف بھی کوٹ لکھپت جیل میں ایام اسیری گزار رہے ہیں۔ حکومتی ایوانوں کی سن گن رکھنے والے ذرائع اگلے مرحلے میں خواجہ آصف اور احسن اقبال کی گرفتاری کا عندیہ بھی دے رہے ہیں۔
مریم نواز کے علاوہ شہباز شریف کے بھتیجے یوسف عباس کو بھی چوہدری شوگر مل کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔ مریم نواز کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے والد میاں نواز شریف سے ملاقات کے لیے کوٹ لکھپت جیل پہنچی تھیں۔ وفاقی وزیر شیخ رشید نے مریم کی گرفتاری پر کہا کہ 'مریم نواز ہو یا کوئی اور جس نے بھی ملکی خزانہ لوٹا ہے اسے قانون کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی مرکزی رہنما مریم نواز کی گرفتاری ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پاکستان میں کشمیر کے حوالے سے قومی لائحہ عمل پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی بات کی جا رہی ہے۔
معروف صحافی محمل سرفراز نے اپنے ٹویٹ پیغام میں لکھا کہ مریم کی گرفتاری اس لیے غیر متوقع نہیں تھی کیوں کہ ان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت حکومت کو 'ٹف ٹائم‘ دے رہی تھی۔
تجزیہ نگار سید طلعت حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ مریم نواز کی گرفتاری کی ٹائئمنگ بہت معنی خیز ہے۔ ان کے بقول، ''حکومت پر جب بھی مشکل وقت آتا ہے تو وہ عوامی تنقید اور خبروں کا رخ بدلنے کے لیے کوئی نہ کوئی ہائی پروفائل گرفتاری کر لیتی ہے۔ کل پارلیمنٹ کے اجلاس میں حکومت پر ہونے والی ہونے والی شدید تنقید کے بعد لگ رہا تھا کہ حکومت دفاعی پوزیشن اختیار کرتی جا رہی ہے۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں طلعت حسین کا کہنا تھا، ''اس گرفتاری سے عالمی سطح پر بہت غلط پیغام گیا ہے۔ اگر حکومت خود ہی غیر جمہوری رویہ اپنائے گی، اپنے مخالفین کو دیوار کے ساتھ لگا دے گی، میڈیا پر پابندیاں عائد کرے گی اور اپوزیشن کی پکڑ دھکڑ جاری رکھے گی تو وہ کس منہ سے عالمی دنیا کے پاس اپنا مقدمہ لے کر جائے گی۔دکھ کی بات یہ ہے کہ کشمیر پر بلایا جانے والا پارلیمنٹ کا اجلاس بھی اس صورت حال میں تتر بتر ہوگیا اور میڈیا کی خبروں میں کشمیر کا مسئلہ اب قدرے پس منظر میں چلا گیا ہے۔‘‘
پاکستان میں سیاسی محاذ آرائی میں یہ شدت ایک ایسے وقت میں آ رہی ہے جب بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر کی حیثیت تبدیل کر رہا ہے، پاک بھارت تجارتی تعلقات ختم ہو چکے ہیں، سمجھوتہ ایکسپریس بند کی جا چکی ہے اور سفارتی تعلقات میں بھی کمی لائی جا چکی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے بقول ان حالات میں ملک میں قومی اتحاد کو فروغ دینے کی کوششوں کو اس گرفتاری سے شدید دھچکا پہنچا ہے۔