1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مریم نواز کے ایک سو دن اور پینک بٹنز

DW Urdu Bloggerin Saddia Mazhar
سعدیہ مظہر
14 جون 2024

یہ 'پینک بٹنز‘ کیا لاہور میں کوئی کام کریں گے؟ یا ان سے پینک پھیلے گا؟ نئی دہلی کی میری ایک دوست اب اس لیے لاہور آنا چاہتی ہے کہ اسے لگتا ہے کہ شاید یہ شہر بھی جلد سنگاپور بن جائے گا کیونکہ یہاں ایک خاتون حکمران ہے۔

تصویر: privat

پنجاب میں مریم نواز کا وزیراعلی کا حلف اٹھانا بہت خار راستہ رہا لیکن حلف برداری کے بعد ایوان میں اپوزیشن کے بلند نعروں میں ایک خاتون کا تنقیدی لہجوں کو دوستی کا پیغام دینا یہ ضرور بتا گیا کہ عورت حاکم ہو تو محبتوں کے پیغام معاشرتی تعفن کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔

مریم نواز کے دور حکومت کے سو دن مکمل ہوئے تو پنجاب حکومت نے اپنی کارکردگی کے دیباچے جاری کیے تب اچانک کچھ سال پہلے کے سو دن یاد آئے جن کے دعوے حکومت ملنے سے پہلے کیے گئے تھے مگر کام کٹوں اور مرغیوں کے منصوبوں سے آگے نا بڑھ سکا۔

حاکمیت بھی ایک ذہنی کیفیت ہے، جہاں انسان کہیں فرعون اور کہیں موسی بنتا ہے۔ پنجاب میں مریم نواز کی حاکمیت نے خواتین کے لیے موسی کا کردار ادا کیا۔ ورچوئل تھانے سے شروع ہوا یہ سفر، چار سو 7سے زائد ڈے کیئر سینٹرز کی منظوری، خواتین کے لیے محفوظ ہاسٹل، خواتین کے لیے چیف منسٹر پنک گیمز کا انعقاد اور لاہور شہر میں سو مقامات پر پینک بٹن تک پہنچا مگر ختم نہیں ہوا۔ کوئی ان منصوبوں سے محفوظ ترین محسوس کرنے والی خواتین کے احساسات کا اندازہ لگا سکتا ہے؟

وزیراعلی پنجاب مریم نواز کے بقول یہ ان کا عزم ہے کہ صوبے میں کہیں بھی کوئی خاتون خود کو غیر محفوظ تصور نا کرے اور خصوصا کام کرنے والی خواتین کے لیے محفوظ ماحول اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے وزیراعلی بہت لگن سے کام کر رہی ہیں۔

بزدار کے دور حکومت میں لاہور شہر میں لگنے والے گندگی کے ڈھیروں نے جہاں ماحول کو آلودہ کیا وہیں شہر کی خوبصورتی کو بھی بہت متاثر کیا ۔ مریم نواز کا ''صاف ستھرا پنجاب‘‘ پروگرام ان سو دنوں میں صرف لاہور تک محدود نہیں رہا بلکہ پورے پنجاب کی وہ بیوروکریسی جو ٹھنڈے دفتروں سے باہر نہیں نکلتی تھی، سڑکوں پر نظر آئی اور شہروں کی شاہراہوں کی اصل شکل عوام نے شاید سالوں بعد دیکھی۔ بیوروکریسی کو ایک عورت کا نکیل ڈالنا کیا اتنا ہی آسان تھا؟

بیوروکریسی ہو یا تھانہ کچہری کی سیاست، مریم نواز صاحبہ جانتی ہیں کہ انہیں کیا کام کروانا ہے اور کس انداز سے کروانا ہے اس لیے ان افسران کے لیے ایسے واضح پیغامات انہیں خودبخود کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔

پنجاب میں موجودہ حکومت نے بہت سے اہم منصوبوں پر کم وقت میں کام کا آغاز کیا۔ فیلڈ ہسپتال اور کلینک ان ویل سے عام آدمی مستفید ہوتا نظر آیا، صحت کی سہولت آپ کی دہلیز پر کے آغاز کے ساتھ ہی پنجاب میں عام آدمی کو ادویات کی ترسیل ان کے گھر پر پہنچنا شروع ہوئی۔ روٹی، زندگی کی بنیادی ضرورت ہے مگر مزدور کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی تھی، پنجاب میں حکومتی سطح پر نا صرف روٹی کی قیمت مقرر کی گئی بلکہ عام آدمی تک اس کی رسائی کو بھی ممکن بنایا گیا۔

خاتون کی حاکمیت نے پنجاب میں خواتین کے اعتماد کو اس حد تک بحال کیا ہے کہ پولیس کے شعبے سے لے کر تعلیمی اداروں تک اب بچیاں اپنی پنک سکوٹیز پہلے سے زیادہ اعتماد سے چلا کر خود اپنی منزل تک پہنچتی ہیں کیونکہ ان کی حفاظت اور آسانی کے لیے ورچوئل تھانہ اور پینک بٹنز کی تنصیب یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اب یہ وقت ان کا ہے۔

مریم نواز پر تنقید تو ہوتی ہی رہی مگر پولیس کا یونیفارم پہننے پر ان پر مقدمہ درج کرنے کی درخواست یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ اب مریم نواز کا نام نہیں کام بول رہا ہے، جہاں عورت بااختیار ہوتی نظر آرہی ہے۔

سیاست میں مخالفین کی جانب سے یہ حربے نئے نہیں رہے لیکن یہاں اہم یہ بات ہے کہ پنجاب کی یہ خاتون اول آپ کو عام آدمی کے ساتھ بیٹھی نظر آئے گی۔ بلاتفریق مذہب، سکھ یاتریوں کی مہمان نوازی کے لیے خود ان کے ساتھ ایک تھالی میں کھاتی نظر آئے گی، جس نے مذہبی تعصب پھیلانے والوں کے حوصلے پست ضرور کیے۔ 

سیاست کی بھینٹ چڑھتی معیشت اور ملکی ترقی میں اس وقت پنجاب میں نئے دور کو ذہن میں رکھتے ہوئے ڈیجیٹل پنجاب اور مریم کی دستک جیسے منصوبے عوام کو ٹیکنالوجی کے ذریعے سہولیات دینے کے حوالے سے بہترین پروگرام ہیں۔ برتھ سرٹیفکیٹ ہو یا موت کا اندراج اب ان سب کے لیے عام آدمی کو دفاتر کی خاک چھاننے کی اور افسران کی خوشامد کی ضرورت نہیں۔

یہ پہلی بار ہے کہ پنجاب میں کوئی خاتون وزیراعلی کے طور پر کامیاب ہوئیں وہ بھی وہ خاتون جن پر مہنگے کپڑے  فیشن اور صنف نازک ہونے پر تنقید ہوتی رہی۔ گمان یہی رہا کہ شاید عام آدمی کی ان تک رسائی ناممکن ہو گی۔ خواتین کا استحصال جاری رہے گا اور حاکمیت کو صرف بند ایوانوں تک محدود رکھا جائے گا۔ لیکن ان سو دنوں میں مریم نواز نے ثابت کیا کہ جس طرح عورت گھر کو سب سے بہتر چلاتی ہے اسی طرح وہ حاکم ہو تو خالی آنکھوں کا درد بغیر کہے پڑھ لیتی ہے۔ 

عورت کی حاکمیت کے یہ سو دن بلاشبہ قابل دید اور قابل ستائش رہے مگر سوال اٹھانے والے اب بھی جمہوریت اور ووٹ کو عزت دینے کے نعرے کی پاسبان جماعت سے یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ حکومت کی یہ منتقلی فارم 45 کے مطابق ہوتی تو شاید ان کی عوامی مقبولیت کو مزید چار چاند لگ جاتے۔ دیکھنا یہی ہے کہ عوامی وزیراعلی ہونے کا دعوٰی کرنے والی مریم نواز کیا خود کے لیے عوام کا دل جیتے کے ساتھ ساتھ مستقبل کے لیے ووٹ بینک بھی جیت پائیں گیں؟

 نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں