1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مریم کی بریت کے ممکنہ قانونی اور سیاسی اثرات

عبدالستار، اسلام آباد
29 ستمبر 2022

مریم نواز شریف کی بریت پر نون لیگ شادیانے بجا رہی ہے اور پاکستان تحریک انصاف تنقید کر رہی ہے۔ قانونی ماہرین البتہ اس پر غور کر رہے ہیں کہ یہ فیصلہ نواز شریف کے مقدمے پر کس طرح اثر انداز ہو گا۔

Kundgebung der Opposition in Pakistan
تصویر: Bilawal House

اسلام آباد ہائی کورٹ نے آج بروز جمعرات مسلم لیگ نون کی رہنما مریم نواز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بری کر دیا اور ان کی سات برس کی قید کی سزا  کو کالعدم  قرار دے دیا ہے۔ ان کے خاوند کیپٹن صفدر  کی ایک برس کی سزا کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا۔ احتساب عدالت نے جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے قبل انہیں یہ سزائیں دی تھی۔ اسی مقدمے میں نواز شریف کو بھی آمدنی سے زیادہ اثاثے بنانے پر دس برس کی سزا دی گئی تھی۔

عدالتی کارروائی اور اہم نکات

عدالت نے سماعت کے دوران کئی ایسے نقاط اٹھائے جن کی بنیاد پر قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو بھی ریلیف مل سکتی ہے۔

مثال کے طور پر ایک موقع پر فاضل جج نے یہ کہا کہ جائیداد کمپنی کے نام پر ہیں اور پراسیکیوٹر ان کمپنیوں اور شریف خاندان کے درمیان تعلق کو ثابت نہیں کر سکے۔ اسی طرح ایک موقع پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ پراسیکیوٹر آفیسر کے نقطہ نظر کو ثبوت نہیں تصور کیا جا سکتا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے ثبوت پیش نہیں کیے اور صرف معلومات اکٹھی کیں۔

پاکستان میں زیر تنقید ٹرانس جینڈر ایکٹ کو ’غیر اسلامی‘ قرار دیے جانے کے نتائج کیا؟

اسحاق ڈار چوتھی مرتبہ وزیر خزانہ بن گئے

پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کسی کے مفاد میں نہیں، بھارت

فاضل جج نے مزید کہا کہ اگر نواز شریف کہتے ہیں کہ ان کا اس جائیداد سے کوئی تعلق نہیں، تو یہ پراسیکیوٹر کا کام ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ ان کا اس سے تعلق ہے۔

عدالت نے یہ بھی کہا کہ پراسیکیوٹر مظفر عباسی کے بیانات متضاد ہیں۔ ایک موقع پر پراسیکیوٹر مظفر عباسی نے جب یہ دعویٰ کیا کہ نواز شریف نے یہ جائیداد مریم کے نام لندن میں اس وقت خریدی تھی جب ان کے پاس پبلک آفس تھا۔ اس پر جسٹس فاروق نے ان سے کہا کہ وہ اس کا ثبوت پیش کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ نیب کے پاس مختلف درخواستوں کے علاوہ کوئی ثبوت نہیں۔

جوتے پالش نہ کرنے کی سزا مل رہی ہے، مریم نواز

04:12

This browser does not support the video element.

قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟

معروف قانونی ماہر کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم ایڈوکیٹ  کے خیال میں اس فیصلے کا نواز شریف کے مقدمے پر بہت گہرا اثر پڑے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''اس مقدمے کے دوران نیب سے جب ثبوت کے بارے میں پوچھا گیا تو نیب کے پراسیکیوٹر نے کہا کہ انہوں نے کارروائی اس لیے کی کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا۔ تو اس طرح اس مقدمے میں ویسے ہی جان نہیں رہی۔ دوسرا یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ ایک انوکھی بات تھی کہ آپ کسی ماتحت عدالت کے اوپر سپریم کورٹ کے ایک جج کو مانیٹرنگ جج مقرر کر دیں اور ٹرائل کورٹ کو یہ حکم دیں کہ وہ فلاں فلاں وقت میں مقدمے کا فیصلہ کرے۔ سپریم کورٹ نے خود اپنے ایک فیصلے میں یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی مقدمہ پہلے ہی عدالت میں چل رہا ہو، تو اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔ لہذا قانونی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے مداخلت کیوں کی اور کیوں ایک مانیٹرنگ جج مقرر کیا اور اس کے بعد بار بار ماتحت عدالت کو فیصلہ کرنے کے لیے وقت بھی دیتی رہی۔‘‘

کرنل انعام الرحیم کے مطابق ایک اور مضبوط قانونی نقطہ یہ ہے کہ اگر آپ نے کوئی جائیداد بنائی ہے اور ہر سال فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں اپنے ریٹرنز جمع کرا رہے ہیں اور اس میں اس جائیداد کی تفصیل بھی لکھ رہے ہیں، تو ایف بی آر کو اسی وقت پوچھنا چاہیے جب اسے کوئی غیر قانونی چیز نظر آئے۔ پانچ سال کے بعد کوئی قانونی توجیح نہیں کہ آپ کسی سے اس کے اثاثوں کے بارے میں پوچھیں۔ تو نواز شریف سے بیس برس پرانے اثاثوں کے بارے میں قانونی طور پر تب کیسے پوچھا گیا۔‘‘

واضح رہے کہ ایون فیلڈ کے اس کیس میں نواز شریف کو بھی دس سال کی سزا ہوئی تھی اور انہیں میڈیکل گراؤنڈ پر سن 2019 میں ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی گئی تھی، اس شرط پر کہ وہ جب بھی سفر کرنے کے قابل ہوں گے یا صحت یاب ہوں گے، تو انہیں واپس آنا پڑے گا۔

تاہم کچھ ماہرین سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی جو سزا ہوئی ہے، اس کی وجوہات مختلف ہیں اور ان کو اس حوالے سے ریلیف نہیں مل سکتی۔ معروف قانون دان اظہر صدیق نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''نواز شریف کے مقدمے میں مریم نواز کا معاملہ بہت بعد میں آیا۔ نواز شریف نے جب جائیداد خریدی تھی اس وقت ان کے بچے نابالغ تھے اور اب یہ جائیداد بچوں کے نام ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نابالغ بچوں نے کس طرح یہ جائیدادیں خرید لیں۔ لہذا میرے خیال میں نواز شریف کو اس مقدمے سے ریلیف نہیں مل سکتی۔‘‘

فیصلے کے سیاسی اثرات

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس فیصلے سے ن لیگ کو سیاسی فائدہ ہو گا۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر ڈاکٹر سرفراز خان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے پی ٹی آئی کے لیے مشکلات اور ن لیگ کے لیے آسانیاں پیدا ہوں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''مریم کی وزرات عظمی اور سیاست میں بغیر کسی ابہام کے حصے لینے میں یہ سزا رکاوٹ تھی، جو اب دور ہو گئی ہے۔ اس فیصلے سے نواز شریف کے لیے ریلیف اور واپسی کی راہ کھل جائے گی۔ دونوں باپ بیٹی بڑے جلسے کریں گے، جس سے ان کی پنجاب میں پوزیشن مضبوط ہو گی اور کے پی میں بھی وہ پی ٹی آئی کو ضرب لگا سکتے ہیں۔‘‘

پاکستان میں سیلاب زیادہ تباہی کی وجہ آخر کیوں بنتے ہیں؟

05:20

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں