مزار شریف حملہ، افغان وزیر دفاع اور فوج کے سربراہ مستعفی
عاطف بلوچ، روئٹرز
24 اپریل 2017
مزار شریف حملے کے بعد افغان وزیر دفاع جنرل عبداللہ حبیبی اور ملکی فوج کے سربراہ قدم شاہ شہیم نے اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دوسری طرف امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس غیر اعلانیہ دورے پر کابل پہنچ گئے ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے چوبیس اپریل بروز پیر بتایا ہے کہ مزار شریف میں واقع فوجی ہیڈ کوارٹرز پر حملوں کے باعث افغان وزیر دفاع جنرل عبداللہ حبیبی اور ملکی فوج کے سربراہ قدم شاہ شہیم مستعفی ہو گئے ہیں۔ جمعے کے دن ہوئی اس خونریز کارروائی میں ایک سو چالیس افغان فوجی ہلاک جبکہ ایک سو ساٹھ زخمی ہو گئے تھے۔
کابل میں صدر دفتر کی طرف سے ایک ٹوئیٹ میں کہا گیا ہے کہ ان دونوں کے استعفے قبول کر لیے گئے ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی مزار شریف حملے کے بارے میں جامع تحقیقات کا حکم بھی جاری کر چکے ہیں۔ غنی کے ترجمان شاہ حسین مرتضوی نے روئٹرز سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ مزار شریف حملے کے باعث ان دونوں عہدیداروں نے استعفیٰ دیا ہے۔
طالبان کی اس کارروائی کو افغان سکیورٹی اداروں کی ایک بڑی ناکامی قرار دیا جا رہا ہے۔ جمعے کے دن تقریباً دس طالبان باغی فوجیوں کی وردیوں میں ملبوس ہو کر شمالی افغانستان میں مزار شریف کے مقام پر فوج کے اہم صدر ہیڈ کوارٹرز میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
ان جنگجوؤں نے وہاں بہیمانہ طریقے سے کارروائی کی تھی۔ بتایا گیا ہے کہ ان جنگجوؤں نے مشین گنوں کے استعمال کے علاوہ خود کش حملے بھی کیے۔ کئی افغان حکام کے مطابق اس حملے میں ہلاک شدگان کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
پیر کی صبح ہی مظاہرین کے ایک چھوٹے سے گروپ نے صدر دفتر کے باہر احتجاج کرتے ہوئے وزیر دفاع کے استعفے کا مطالبہ کیا تھا۔ افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ اس واقعے کی مکمل تحقیقات کی جائیں گی اور معلوم کیا جائے گا کہ آخر جنگجو اس فوجی بیس میں داخل ہونے میں کیسے کامیاب ہوئے۔
افغانستان: ’’جنگ میں زندگی‘‘
ایرانی فوٹوگرافر مجید سعیدی کی تصویریں یہ بتاتی ہیں کی جنگ نے عام افغانیوں کی زندگیوں کو کس طرح متاثر کیا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
کھلونا نہیں
یہ کوئی کھلونا نہیں ہے۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل کے جنوب میں دو بچیاں مصنوعی بازو سے کھیل رہی ہیں۔ اس تصویر سے ایرانی فوٹوگرافر مجید سعیدی کی تصویروں کی اہمیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بہترین فوٹوگرافر
مجید سعیدی کی تصویریں خبروں کے پیچھے چھپی کہانیاں بیان کرتی ہیں۔ ایسی کہانیاں جو صرف خوف اور اذیتوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ سعیدی کو کئی دیگر انعامات کے علاوہ سن 2013 میں ’ورلڈ پریس فوٹو ایوارڈ‘ سے بھی نوازہ جا چکا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بچوں کی دنیا
سعیدی کی زیادہ تر تصاویر میں بچوں کی زندگی اور ان کے درپیش مشکلات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ بچہ بارودی سرنگ کے پھٹنے کی وجہ سے اپنے دونوں بازوؤں سے محروم ہو گیا تھا۔
تصویر: Majid Saeedi
واضح نشانیاں
نہ صرف چہرے اور ان پر موجود زخموں کے نشانات بلکہ افغانستان کی تباہ حال عمارتیں بھی جنگ کی تاریخ بیان کرتی ہیں۔ گھروں کے کھنڈرات، ہر جگہ گولیوں کے سوراخوں اور تباہ شدہ عمارتوں سے جنگ کی تباہی عیاں ہو رہی ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
واضح تضاد
افغانستان کی خوبصورت سرزمین پر جگہ جگہ جنگ کے دوران ہونے والے تباہی بھی نمایاں ہے۔ ایک ہی جگہ پر خوبصورتی اور دل کو ہلا دینے والے خوفناک مناظر کو دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
نشے کی لت
نشے کی لت افغانستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ نوّے فیصد افیون پیدا کرنے والا ملک ہے اور یہاں نشے کے عادی افراد کی تعداد بھی اسی لحاظ سے زیادہ ہے۔ افغانستان میں نشے کی لت میں مبتلا بچوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہے لیکن اقوام متحدہ کے اعداو شمار کے مطابق وہاں تین لاکھ بچے نشہ کرتے ہیں۔
تصویر: Majid Saeedi
پولیس پریڈ
کابل میں صبح سویرے پولیس پریڈ: گزشتہ کئی برسوں سے مغربی حکومتیں افغان پولیس کی تربیت کا عمل جاری رکھے ہوئی ہیں۔
تصویر: Majid Saeedi
افغان تعلیم
ایک مدرسے کے استاد سے سزا ملنے پر بچے کے چہرے پر درد دیکھا جا سکتا ہے۔ افغانستان میں اسکولوں کا یکساں نظام موجود نہیں ہے۔ زیادہ تر بچوں کو معاشی حالات کی وجہ سے اسکولوں میں جانے کی بجائے کام کاج پر بھیجا جاتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
تعلیمی زوال
افغانستان میں سن 1979ء سے جاری ’خانہ جنگی‘ نے وہاں کے بچوں اور نوجوانوں کی صورتحال کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ 72 فیصد مردوں اور 93 فیصد خواتین کے پاس اسکول کی سند نہیں ہے۔ مجموعی طور پر اس ملک کی 70 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
برقعہ اور باربی
خواتین کے لیے مدد: ملائیشیا کی ایک غیر سرکاری تنظیم خواتین کو مقامی سطح پر گڑیا تیار کرنے کے کورسز کرواتی ہے۔ اس تربیت کا مقصد خواتین کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرنا ہیں تاکہ وہ اپنا خرچ خود اٹھا سکیں۔
تصویر: Majid Saeedi
پہلوانی کا شوق
افغانی ویٹ لفٹر ایک مقابلے کے بعد آرام کر رہا ہے۔ طالبان کے دور حکومت میں باڈی بلڈنگ جیسے کھیلوں پر سختی سے پابندی عائد تھی۔ یہ کھیل ایک مرتبہ پھر افغانستان بھر میں مقبول ہو رہا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
کھنڈرات میں فصل
گزشتہ تیس برسوں میں سویت یونین اور نیٹو افواج کی جنگ نے جگہ جگہ اپنے نشانات چھوڑے ہیں۔ افغانیوں کو روزانہ ان نشانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
لازمی مضمون قرآن
قرآن کو حفظ کرنے کے لیے انتہائی توجہ اور پرسکون ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔ افغانستان کے جنوبی شہر میں ایک لڑکا قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے۔
تصویر: Majid Saeedi
مقبول کھیل
عوامی سطح پر جانوروں کے مقابلے افغان روایات کا لازمی جزو ہیں۔ ملک بھر میں مرغوں اور کتوں کے مقابلوں کا انعقاد کروایا جاتا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
بند زندگی
افغانستان میں ذہنی طور پر بیمار افراد کو غیر انسانی حالات اور معاشرے سے الگ تھلگ ہو کر رہنا پڑتا ہے۔ مغربی شہر ہرات کے ایک پاگل خانے میں مریضوں کو زنجیروں میں باندھ کر رکھا گیا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
حقیقی ویرانی
اکرم کو بازوؤں کی بجائے دو مصنوعی اعضاء کا سہارا ہے۔ رات کو سوتے وقت وہ ان ’اعضاء‘ کو دیوار کے ساتھ لٹکا دیتا ہے۔ اکرم ان ہزاروں افغان بچوں میں سے ایک ہے، جن کے مقدر ایسے ہی ہیں۔ وہ مقدر جنہیں ایرانی فوٹو گرافر اپنی تصویروں کے ذریعے چہرے فراہم کر رہا ہے۔
تصویر: Majid Saeedi
فوٹو گرافر کا مشن
مجید سعیدی کے بقول شروع ہی سے ان کی کوشش یہ رہی ہے کہ انسانی تشدد کو تصویروں کی مدد سے منظر عام پر لایا جائے۔ افغان جنگ کو موضوع بنانے کا خیال انہیں اس وقت آیا، جب وہ ریڈ کراس کے ساتھ کام کرتے ہوئے جنگ کے متاثرین سے ملے۔
تصویر: Maryam Ashrafi
17 تصاویر1 | 17
خبر رساں اداروں کے مطابق پیر کے دن امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس اپنے پہلے سرکاری دورے پر افغانستان پہنچ گئے ہیں۔ وہ ایک ایسے وقت پر کابل پہنچے ہیں، جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ افغانستان کے لیے پالیسی تیار کرنے پر غور کر رہی ہے۔
گزشتہ اتوار کو امریکی سلامتی کے قومی مشیر جنرل ایچ آر میک ماسٹر نے بھی افغانستان کا دورہ کیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ میٹس اپنے اس دورے کے دوران افغان قیادت سے ملاقاتوں کے علاوہ افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں سے بھی ملیں گے۔
امریکا کے علاوہ دیگر عالمی طاقتوں نے بھی مزار شریف میں ہوئے اس حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے افغان صدر اشرف غنی کو ارسال کردہ اپنے ایک پیغام میں افغان حکومت اور عوام کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا تھا۔ برلن حکومت نے کہا ہے کہ طالبان کی اس کارروائی کے باوجود کابل حکومت سے تعاون کا سلسلہ جاری رہے گا۔ یاد رہے کہ تقریباً ساڑھے نو سو جرمن فوجی افغانستان میں تعینات ہیں، جو مقامی دستوں کو مشاورت اور تربیت فراہم کر رہے ہیں۔