مزدوروں کا احتجاج ، بنگلہ دیش میں سینکڑوں فیکٹریاں بند
22 جون 2010بنگلہ دیشی مزدوروں کی طرف سے احتجاج کا یہ سلسہ ہفتے کے روز شروع ہوا تھا، جب 50000 سے زائد صنعتی کارکنان کا پولیس کے ساتھ تصادم ہوا تھا۔ اِن جھڑپوں کی وجہ سے Ashulia کا صنعتی علاقہ میدانِ جنگ میں تبدیل ہوتا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ پیر کو بھی ہزاروں مزدوروں نے فیکٹریوں میں کام بند کردیا تھا اور زیادہ اجرتوں کے لئے چار گھنٹے تک احتجاج کیا تھا۔
بنگلہ دیش گارمنٹ مینوفیکچررز اینڈ امپورٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ مبینہ پرتشدد احتجاج کی وجہ سے لوگوں میں خوف و ہراس پیدا ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے فیکٹریوں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
صنعت کاروں کی اس تنظیم کے نائب صدر شفیع الاسلام محی الدین کے مطابق گزشتہ تین دنوں میں احتجاجی مزدوروں نے 50 سے زائد فیکٹریوں میں مبینہ طور پر توڑ پھوڑ کی، جس کی وجہ سے فیکٹریوں کے مالکان وقت پر مطلوبہ پیداوار حاصل نہیں کرسکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیداواری عمل میں رکاوٹ کی وجہ سے صنعت کاروں کو کروڑوں ڈالرز کا نقصان ہوا ہے۔
ڈھاکہ ڈسٹرکٹ پولیس کے سربراہ اقبال بہار کے مطابق منگل کو ہزاروں مزدور جب کام کرنے کے لئے فیکٹریوں پر پہنچے، تو صنعتی یونٹوں کی بندش کو دیکھ کر مشتعل ہوگئے۔ مزدوروں نے اس بندش کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔ اس دوران اُن کی پولیس کے ساتھ جھڑپ بھی ہوئی۔ پولیس نے مظاہرین کو قابو کرنے کے لئے آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا۔
بنگلہ دیش کے مزدور، جو وال مارٹ، ایچ اینڈ ایم سمیت کئی مغربی کمپنیوں کے لئے گارمنٹس تیار کرتے ہیں، کا مطالبہ ہے کہ اُن کی ماہانہ تنخواہ 5000 بنگلہ دیشی ٹکا یعنی 70 امریکی ڈالر کردی جائے۔ بنگلہ دیش میں اس وقت کم سے کم تنخواہ 25 امریکی ڈالر ماہانہ ہے۔
ایشین ٹائیگر کیپیٹل نامی سرمایہ کاری بینک سے وابستہ عفتی اسلام کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش کے گارمنٹ سیکٹرمیں مزدوروں کی کم ازکم اجرت پوری دنیا میں سب سے کم ہے۔ عفتی اسلام کا کہنا ہے کہ ایک سال میں مہنگائی میں 10 سے 15 فیصد کا اضافہ ہوا ہے، جب کہ اجرتوں میں اِسی طرح کا اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔
کئی بڑی غیر ملکی کمپنیوں نے اِس سال جنوری میں بنگلہ دیشی وزیرِاعظم کو ایک خط کے ذریعے اِن اجرتوں میں اضافہ کی درخواست کی تھی۔ اس خط میں کہا گیا تھا کہ اتنی کم اجرتیں مزدوروں میں بے چینی کا باعث بن رہی ہیں۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: عدنان اسحاق