1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ سے فلسطینیوں کی نقل مکانی کی حمایت

27 جنوری 2025

اسرائیل اور حماس کے مابین مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی پر اتفاق رائے کے ساتھ ہی بے گھر فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد نے پیر کے روز جنگ سے تباہ حال غزہ پٹی کے شمال کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔

شمالی غزہ کی تازہ ترین جھلکیاں
شمالی غزہ میں گھر بار سے محروم فلسطینیتصویر: Mohammed al Madhoun/DW

فلسطینی علاقے نصیرات سے 27 جنوری بروز پیر موصولہ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل اور حماس کی طرف سے اس اعلان کے بعد کہ وہ مزید اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک نئے اتفاق رائے تک پہنچ گئے ہیں، پیر کو بے گھر فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد جنگ زدہ غزہ پٹی کے شمالی حصے کی طرف بڑھنے لگی۔ حماس اور اسرائیل نے کہا ہے کہ کہ وہ مزید چھ مغویوں کی رہائی پر متفق ہو گئے ہیں۔ یہ پیش رفت انتہائی نازک جنگ بندی کو تقویت دینے کا سبب بنے گی اور اس اتفاق رائے کے تحت مزید اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ ان اقدامات کا مقصد 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری غزہ میں مسلح تنازعے کا خاتمہ ہے۔ یہ جنگ غزہ پٹی کو مکمل طور پر تباہ کر چکی ہے اور اس فلطسینی علاقے کے تقریباً تمام رہائشی بے گھر ہو چکے ہیں۔

امریکہ: یمن کے حوثی باغی دوبارہ ’دہشت گرد‘ گروپ میں شامل

جنگ بندی کے شرائط کی خلاف ورزی کا الزام

اسرائیل حماس پر جنگ بندی کی شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے فلسطینیوں کو شمالی غزہ میں ان کے گھروں کو واپس جانے سے روک رہا تھا، لیکن وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے دفتر نے اتوار کو دیر گئے بتایا کہ نئی ڈیل طے پانے کے بعد ان فلسطینیوں کو بند راستوں سے گزرنے کی اجازت دے دی جائے گی۔ اے ایف پی ٹی وی کی نشرکردہ تصاویر میں دکھایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کا ایک بڑا ہجوم  پیر کی صبح ساحلی سڑک پر شمال کی طرف اپنا راستہ بناتے ہوئے تمام ممکنہ سامان ساتھ لیے جا رہا تھا۔

غزہ پٹی کے بے گھر ہو جانے والے ایک باشندے ابراہیم ابو حصیرا نے اے ایف پی کو بتایا، ''واپس گھر کی طرف جانے، اپنے خاندان، رشتہ داروں اور عزیزوں کے پاس جانے اور اپنے گھر کا معائنہ کرنے کا احساس بہت سہانا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ اگر یہ گھر اب بھی گھر باقی رہ گیا ہے تو۔‘‘

غزہ پٹی کے شمالی حصے کے بے گھر فلسطینی اپنے گھروں کی طرف لوٹنے کی کوشش میںتصویر: Mohammed al Madhoun/DW

ادھر عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس نے فلسطینیوں کی گھروں کو واپسی کو ان کی  ''فتح‘‘ قرار دیا ہے، جو حماس کے بقول ''غزہ پٹی کے اس علاقے پر اسرائیلی قبضے اور یہاں کے مکینوں کی اس علاقے سے نقل مکانی کے منصوبوں کی ناکامی اور شکست کا اشارہ ہے۔‘‘

رفح کراسنگ کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہے گا

دریں اثنا حماس کی اتحادی تنظیم جہاد اسلامی نے فلسطینیوں کی اس واپسی پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''یہ اقدام ان تمام افراد کی خواہشات پر رد عمل کی حیثیت رکھتا ہے، جو ہمارے لوگوں کو بے گھر کرنے کا خواب دیکھتے ہیں۔‘‘

ٹرمپ کا غزہ کی 'تطہیر‘ کا تصور

حماس اور جہاد اسلامی کی طرف سے یہ بیانات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے  پیش کردہ ان خیالات کے سامنے آنے کے بعد دیے گئے، جن میں دوسری بار امریکی صدر بننے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ غزہ کے علاقے کو خالی کرا کے تمام فلسطینیوں کو اردن اور مصر میں آباد کر دیا جائے۔ امریکی صدر کے ان خیالات کی تاہم علاقائی رہنماؤں کی جانب سے مذمت کی گئی تھی۔

غزہ سیزفائر جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گی؟

02:07

This browser does not support the video element.

صدر محمود عباس کیا کہتے ہیں؟

فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس، جن کی فلسطینی اتھارٹی مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے میں قائم ہے، نے غزہ پٹی سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے ''کسی بھی منصوبے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت‘‘ کی ہے۔

غزہ کی تعمیر نو میں دہائیاں اور اربوں ڈالر درکار

فلسطینی باشندے ساحلی سڑک پر شمال کی طرف اپنا راستہ بناتے ہوئے تصویر: Mohammed al Madhoun/DW

محمود عباس کے دفتر سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''غزہ سے فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کے لیے کسی بھی منصوبے کو سختی سے مسترد کیا جاتا ہے اور اس کی مذمت کی جاتی ہے۔‘‘ حماس کے سیاسی دفتر کے ایک رکن باسم نعیم نے اے ایف پی کو بتایا، ''فلسطینی اس طرح کے کسی بھی منصوبے کو ناکام بنا دیں گے۔ ویسے ہی جیسے وہ دیگر کئی منصوبوں کو ناکام بنا چکے ہیں۔‘‘

باسم نعیم نے کہا کہ جس طرح فلسطینی عشروں کے دوران اپنی نقل مکانی، بے گھر ہونے اور کسی متبادل وطن کی راہ اختیار کرنے کے منصوبوں کو ناکام بنا چکے ہیں، اسی طرح اب کسی ایسے منصوبے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔

غزہ سے نقل مکانی فلسطینیوں کے لیے 'نقبہ‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فلسطینیوں کے لیے انہیں غزہ سے کسی دوسرے مقام پر منتقل کرنے کی کوئی بھی کوشش ان کی تاریخ کے اس تاریک باب کی یادوں کو تازہ کر دے گی، جسے عرب دنیا 'نقبہ‘ یا 'بڑی تباہی‘ سے عبارت کرتی ہے۔ اس سے مراد وہ واقعات ہیں جو 1948ء میں اسرائیلی ریاست  کے وجود میں آنے کے دوران فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا سبب بنے تھے۔

فائر بندی کے بعد حماس کے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں میں سے تین خواتین رہا

غزہ پٹی کے ایک اور بے گھر رہائشی، راشد الناجی کہتے ہیں، ''ہم ٹرمپ اور پوری دنیا سے کہتے ہیں کہ ہم فلسطین یا غزہ کو نہیں چھوڑیں گے، چاہے کچھ بھی ہو جائے۔‘‘

پیر کو بے گھر فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد جنگ زدہ غزہ پٹی کے شمالی حصے کی طرف بڑھنے لگیتصویر: Mohammed al Madhoun/DW

امریکی صدر نے کیا خیال پیش کیا؟

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہفتے کے روز اپنے صدارتی طیارے ایئر فورس ون میں سوار صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں اپنا یہ خیال پیش کرتے ہوئے کہا تھا، ''آپ شاید ڈیڑھ ملین باشندوں کی بات کر رہے ہیں اور ہم پورا علاقہ صاف کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا، ''غزہ پٹی کے تقریباً 2.4 ملین باشندوں کو منتقل کرنا عارضی طور پر یا طویل المدتی عمل ہو سکتا ہے۔‘‘

ادھر اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ اسموتریچ نے، جنہوں نے غزہ جنگ بندی معاہدے کی مخالفت کی تھی اور غزہ میں اسرائیلی بستیوں کی دوبارہ تعمیر کی حمایت کا اظہار بھی کیا تھا، ٹرمپ کی اس تجویز کو ''ایک عظیم خیال‘‘ قرار دیا ہے۔

دوسری طرف عرب لیگ نے اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے ''فلسطینی باشندوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے کی ایسی کوششوں‘‘ کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کو ''صرف  اور صرف نسلی تطہیر‘‘ ہی کہا جا سکتا ہے۔

غزہ سیزفائر: جنگ کے بعد یورپی یونین کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟

عرب ریاستوں کا رد عمل

اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے کہا، ''ہم فلسطینیوں کی نقل مکانی کے اس خیال کو سختی سے مسترد کرتے ہیں اور صورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اردن اردن کے باشندوں کے لیے ہے اور فلسطین فلسطینیوں کے لیے۔‘‘

مصری وزارت خارجہ نے بھی کہا ہے کہ وہ فلسطینی عوام کے ''ناقابل تنسیخ حقوق‘‘ کی کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی کو کلی طور پر مسترد کرتی ہے۔

ک م/ع ت، م م (اے ایف پی، روئٹرز، اے پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں