مزید افغان مہاجرین کی جرمنی بدری، تنقید کا سلسلہ بھی جاری
4 دسمبر 2018
جرمن حکومت ایسے افغان مہاجرین کے ایک اور گروہ کو ملک بدر کر رہی ہے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔ تاہم کئی حلقے اس عمل کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اشتہار
جرمنی میں مہاجرین کے حامی ادارے ’پرو ازیول‘ نے افغان مہاجرین کی جرمنی سے افغانستان واپسی کے عمل کے تسلسل کو ایک بار پھر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
آج منگل چار دسمبر کو فرینکفرٹ میں اس ادارے کے ترجمان نے کہا کہ افغانستان واپس روانہ کر کے ان افغان مہاجرین کو سلامتی کے خطرات سے دوچار کیا جا رہا ہے۔
پرو ازیول کے مطابق جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا یہ عمل ’غیر ذمہ دارانہ‘ ہے اور اسے اس پر افسوس ہے۔
یہ بیان ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے، جب آج منگل کے دن ہی افغان مہاجرین کے ایک اور گروہ کو واپس افغانستان روانہ کیا جا رہا ہے۔
جرمنی اور افغانستان حکومتوں کے مابین ایک ڈیل کے تحت ایسے مہاجرین کی جرمنی بدری کا عمل ممکن ہو سکا تھا، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔
یہ معاہدہ سن دو ہزار پندرہ میں طے پایا تھا اور تب سے اب تک مجموعی طور پر انیس خصوصی پروازوں کے ذریعے 425 افغان باشندوں کو جرمنی بدر کیا جا چکا ہے۔
جرمنی میں مہاجرین اور تارکین وطن کے حقوق کے لیے فعال ادارے ’پرو ازیول‘ نے گزشتہ ہفتے ہی کہا تھا کہ افغان مہاجرین کی ملک بدری اور انہیں افغانستان واپس روانہ کرنے کے عمل کو روکا جائے۔
کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں طالبان اور دیگر شدت پسند گروہوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے اور وہاں سکیورٹی کی صورتحال بگڑتی جا رہی ہے۔
کابل فوج کے مطابق ملک کے نصف اضلاع پر جنگجوؤں کا کنٹرول ہے۔ یہ جنگجو گروپ زیادہ تر غیر ملکی فوجیوں اور ملکی عسکری تنصیبات اور اہلکاروں کو ہدف بناتے ہیں۔ تاہم ایسے حملوں میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر عام شہری ہی ہوتے ہیں۔
ع ب / ا ع / خبر رساں ادارے
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔