مزید افغان مہاجرین کی جرمنی بدری، کابل پہنچا دیا گیا
14 نومبر 2018
افغان مہاجرین کا ایک اور گروپ جرمنی سے ڈی پورٹ کر دیا گیا ہے۔ افغان حکام نے بتایا ہے کہ ایک خصوصی طیارہ ان افراد کو لے کر آج بدھ کے روز کابل پہنچا۔ بتایا گیا ہے کہ ان مہاجرین کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے افغان حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ افغان مہاجرین کا ایک اور گروپ جرمنی سے بیدخل کر دیا گیا ہے۔ کابل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کے حکام نے میڈیا کو بتایا کہ تقریباﹰ چالیس ایسے افغان باشندوں کو جرمنی سے افغانستان پہنچایا گیا ہے، جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمنی اور دیگر یورپی ممالک نے ایسے مہاجرین اور تارکین وطن کی ملک بدری کا سلسلہ تیز کر رکھا ہے، جن کی پناہ کی درخواستیں رد ہو چکی ہیں۔
حکام کے مطابق آج بدھ 14 نومبر کی صبح ساڑھے آٹھ بجے ایک طیارہ کابل کے ہوائی اڈے پر اترا، جس میں یہ مہاجرین موجود تھے۔ مجموعی طور پر یہ مہاجرین کا اٹھارہواں ایسا گروپ ہے، جسے جرمنی سے واپس افغانستان روانہ کیا گیا ہے۔ دسمبر سن دو ہزار سولہ میں کابل اور برلن حکومتوں کے مابین ایک ڈیل طے پائی تھی، جس کے نتیجے میں جرمنی سے ایسے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا عمل ممکن ہوا، جن کی پناہ کی درخواستوں کو مسترد کیا جا چکا ہے۔
افغان حکام کے مطابق اس ڈیل کے طے پانے کے بعد سے کم ازکم 383 افغان باشندوں کو جرمنی سے افغانستان منتقل کیا جا چکا ہے۔ افغانستان میں تشدد کے تازہ واقعات کے تناظر میں افغان مہاجرین کی ملک واپسی کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ افغانستان ایک خطرناک ملک ہے، اس لیے وہاں سے فرار ہونے والے تارکین وطن کو واپس روانہ نہیں کرنا چاہیے۔
افغانستان میں طالبان کے علاوہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ اور دیگر شدت پسند گروپ بھی فعال ہیں، جو حالیہ عرصے میں اپنی کارروائیوں میں تیزی لا چکے ہیں۔ کابل فوج کے مطابق ملک کے نصف اضلاع پر جنگجوؤں کا کنٹرول ہے۔ یہ جنگجو گروپ زیادہ تر غیر ملکی فوجیوں اور ملکی عسکری تنصیبات اور اہلکاروں کو ہدف بناتے ہیں۔ تاہم ایسے حملوں میں ہلاک ہونے والے زیادہ تر عام شہری ہی ہوتے ہیں۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔