حاملہ، پریشان اور غریب پاکستانی خاتون زمینہ کے سامنے تلخ سوال ہے، وہ خفیہ اسقاط حمل کے ذریعے اپنی زندگی خطرے میں ڈالے یا چھٹا بچہ پیدا کر کے شوہر کے ہاتھوں اپنی زندگی مشکل بنائے؟
اشتہار
زمینہ نے چھٹا بچہ پیدا کرنے کی بجائے اپنی زندگی خطرے میں ڈالتے ہوئے خفیہ طریقے سے اسقاط حمل کا فیصلہ کیا۔ وہ ان دو ملین سے زائد خواتین میں سے ایک ہیں، جو پاکستان میں ہر سال خفیہ طور پر اسقاط حمل کے عمل سے گزرتی ہیں۔ پاکستان میں ان مسائل کی بنیادی وجوہات مذہبی رہنماؤں کی جانب سے خاندانی منصوبہ بندی کے اقدامات پر تنقید، مانع حمل اشیاء اور ادویات تک عدم رسائی اور جنسی تعلیم کی کمی جیسے امور ہیں۔
امریکی ادارے گُٹماچر انسٹیٹیوٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال حاملہ ہونے والی خواتین میں سے نصف، یعنی قریب چار اعشاریہ دو ملین خواتین، بغیر طے کیے حاملہ ہوتی ہیں اور ان میں سے چوون فیصد کا ابورشن یا اسقاطِ حمل کرواتی ہیں۔
زمینہ نے (خاتون کے تحفظ کی خاطر نام تبدیل کیا گیا ہے) پاکستانی شہر پشاور میں خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ’’تین سال پہلے، میری بیٹی پیدا ہوئی تھی، تو ڈاکٹر نہیں کہا تھا کہ اب مزید بچے پیدا نہ کروں کیوں کہ یہ میری صحت کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔‘‘
اس 35 سالہ خاتون نے مزید کہا، ’’مگر میں جب بھی اپنے شوہر سے بات کرتی ہوں، وہ کہتا ہے، خدا پر بھروسا رکھو۔ میرا شوہر ایک مذہبی شخص ہے اور وہ بیٹوں کی قطار چاہتا ہے۔‘‘
کئی دہائیاں قبل پاکستان میں خاندانی منصوبہ بندی کی مہم کا نعرہ تھا، ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ مگر اس نعرے کو مذہبی طبقے کے علاوہ قوم پرستوں نے بھی مسترد کر دیا تھا، جو ہم سایہ ملک بھارت کی ایک اعشاریہ دو ارب آبادی کے تناظر میں ملک کی آبادی میں اضافہ چاہتے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ آبادی دو سو سات ملین ہے۔
ننھے ہاتھ، بھاری منافع: تُرکی میں چائلڈ لیبر
تعلیم کے بجائے مزدوری: تُرکی میں لاکھوں شامی تارکین وطن کے بچے اسکول نہیں جاتے۔ چائلڈ لیبر پر پابندی کے باوجود بہت سے بچے یومیہ بارہ گھنٹوں تک مزدوری کرتے ہیں۔ ترکی ميں سلائی کے ايک کارخانے کی تصویری جھلکیاں۔
تصویر: DW/J. Hahn
کام کا ڈھیر لگا ہوا ہے
خلیل کی عمر 13 سال ہے اور اس کا تعلق دمشق سے ہے۔ ترک شہر استنبول کے علاقے ’باغجیلار‘ میں واقع سلائی کے کارخانے میں خلیل ہفتے کے پانچ دن کام کرتا ہے۔ اس علاقے ميں سلائی کے بیشتر کارخانوں میں زيادہ تر خلیل کی طرح کے بچے ہی کام کرتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ساتھ کام کرنے والے بچے
اس ورکشاپ میں سلائی مشینیں بلا ناغہ چلتی ہیں۔ یہاں کام کرنے والے پندرہ ملازمین میں سے چار بچے ہیں، جن کا تعلق شام سے ہے۔ ترکی میں ٹیکسٹائل کی صنعت کے شعبے میں وسیع پیمانے پر بچوں کی مزدوری کی صورت ميں غیر قانونی کام جاری ہے۔ نو عمر بچوں سے نہ صرف کم اجرت پر مزدوری کرائی جاتی ہے بلکہ کاغذات اور کسی بھی قسم کے تحفظ کے بغير کام کرایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
اسکول جانےسے محروم بچے
سوتی کے کپڑے کو چھانٹتے ہوئے 13 سالہ خلیل کہتا ہے، ’’میں مستقبل کے بارے میں نہیں سوچتا۔‘‘ یہاں خواتین کے انڈر گارمنٹس بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ چھانٹنا، کاٹنا اور سینا، خلیل کے ساتھ ایک نوجوان خاتون بھی کام کرتی ہيں۔ خلیل اپنے آبائی ملک شام میں تیسری جماعت کا طالب علم تھا لیکن خانہ جنگی کی باعث خلیل کو اپنا مکان اور سب کچھ چھوڑنا پڑا۔ اب خلیل اسکول جانے کے بجائے سلائی کے کارخانے میں کام کر رہا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
استحصال یا مدد؟
ترکی میں چائلڈ لیبر پر پابندی ہے۔ 15 سال سے کم عمر کے بچوں کو ملازمت دینے پر جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔ اس بات سے کارخانے کا مالک بخوبی واقف ہے، اسی لیے وہ اپنی شناخت ظاہر نہیں کرنا چاہتا۔ ’میں بچوں کو کام دیتا ہوں تاکہ وہ بھيک مانگنے سے بچ سکیں۔ مجھے معلوم ہے کہ بچوں کو کام دینے پر پابندی ہے۔ لیکن اس طرح سے میں ان کے اہلِ خانہ کی مدد کر رہا ہوں جو کے شاید اس مشکل صورتحال سے باہر نہیں نکل سکيں۔‘
تصویر: DW/J. Hahn
’امید کرتا ہوں کہ میں گھر واپس جا سکوں‘
مُوسیٰ کی عمر بھی 13 سال ہے۔ سلائی کے اس ورکشاپ میں زیادہ تر بچے شام کے شمالی صوبہ ’عفرین‘ کی کُرد آبادی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کام کے علاوہ موسیٰ کی کیا مصروفیات ہیں؟ وہ بتاتا ہے، ’’میں فٹ بال کھیلتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ شام میں دوبارہ امن بحال ہوجائے تاکہ ہم گھر واپس جا سکیں۔‘‘ موسیٰ شام واپس جا کر تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر بننا چاہتا ہے۔
تصویر: DW/J. Hahn
سستی ملازمت
اس ورکشاپ میں روزانہ خواتین کے لیے ہزاروں انڈر گارمنٹس مختلف رنگ اور ناپ میں تیار کیے جاتے ہیں۔ ان ملبوسات کی قیمت صرف چند ترکش لیرا ہے۔ ترکی میں بچوں سے مزدوری کرانے کا مقصد چین کے مقابلے میں سستی لیبر کی تياری ہے۔ ترکی میں بچوں کو فی گھنٹہ 50 یورو۔سینٹ سے بھی کم اجرت ادا کی جاتے ہے جبکہ بچوں کے مقابلے میں بالغ مزدور دگنا کماتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
ایک دن میں بارہ گھنٹے کام
آرس گیارہ سال کی بچی ہے اور گزشتہ چار ماہ سے کام کر رہی ہے۔ آرس کی والدہ فی الوقت حاملہ ہیں اور اس کے والد بھی ٹیکسٹائل فیکٹری میں کام کرتے ہیں۔ آرس کے دن کا آغاز صبح آٹھ بجے ہوتا ہے۔ آرس کی ڈیوٹی شب آٹھ بجے ختم ہوتی ہے۔ اس کو دن میں دو مرتبہ کام سے وقفہ لینے کی اجازت ہے۔ تنخواہ کی صورت میں آرس کو 700 ترکش لیرا ماہانہ ملتے ہیں جو تقریبا 153 یورو بنتے ہیں۔
تصویر: DW/J. Hahn
تعلیم: عیش و عشرت کے مانند ہے
چونکہ آرس پیر سے جمعہ تک کام میں مصروف ہوتی ہے اس لیے وہ سرکاری اسکول نہیں جا سکتی۔ تاہم آرس ہفتے کے آخر میں ایک شامی سماجی ادارے کے زیرِ انتظام چلنے والے اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جاتی ہے۔ نصاب میں ریاضی، عربی اور ترکش زبان سکھائی جاتی ہے۔ اس سکول کے زیادہ تر اساتذہ کو بھی جنگ کی وجہ سے اپنا ملک ’شام‘ چھوڑنا پڑا تھا۔
تصویر: DW/J. Hahn
کلاس روم سے دوری
چار سے اٹھارہ سال کی عمر کے درمیان کے 70 سے زائد بچے اس چھوٹے سے شامی سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ بعض اوقات خواتین اساتذہ بچوں کے والدین کو قائل کرنے کے لیے ان کے گھر بھی جاتی ہیں۔ یہ اساتذہ والدین سے اپنے بچوں کو کم از کم ایک دن اسکول بھیجنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاکہ بچوں کو اپنا مستقبل سوارنے کا موقع مل سکے۔
تصویر: DW/J. Hahn
9 تصاویر1 | 9
زمینہ کے مطابق، ’’میں جب بھی اپنے شوہر سے خاندانی منصوبہ بندی کا کہتی ہوں، وہ مسترد کر دیتا ہے۔ میری ساس کے نو بچے ہیں۔ جب میں اپنے شوہر سے شکایت کرتی ہوں کہ میں مزید بچے پیدا نہیں کر سکتی، تو وہ کہتا ہے، جب میری ماں نہیں مری تو تم بھی زندہ رہو گی۔‘‘
واضح رہے کہ پاکستان میں قانون طور پر اگر ماں کی زندگی کو خطرات لاحق ہوں، تو اسقاط حمل کی اجازت ہے، تاہم بہت سے ڈاکٹرز اسلامی عقیدے کی بنا پر اسقاط حمل کرنے سے کتراتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ان خواتین کو غیر قانونی طور پر یہ عمل سرانجام دینا پڑتا ہے جب کہ حکام اس جانب دخل اندازی نہیں کرتے۔