مزید حملوں کا خدشہ، برطانیہ میں فوج تعینات کرنے کا فیصلہ
عاطف بلوچ، روئٹرز
24 مئی 2017
مانچسٹر حملے کے بعد برطانیہ بھر میں سکیورٹی ہائی الرٹ کر دی گئی ہے۔ وزیر اعظم ٹریزا مے کے مطابق برطانیہ میں مزید حملے کیے جا سکتے ہیں، اس لیے ملک بھر کے اہم مقامات پر فوج تعینات کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کے حوالے سے بتایا ہے کہ مانچسٹر حملے کے بعد برطانیہ میں دہشت گردانہ حملوں کے خطرے کے لیول کو بڑھا دیا گیا ہے۔ مے نے کہا ہے کہ ایسی اطلاعات میں کہ برطانیہ میں مزید حملے ہو سکتے ہیں، اس لیے اس تناظر میں کوئی غیر ذمہ داری نہیں برتی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس لیے خطرے کا لیول ‘شدید‘ سے بڑھا کر ‘انتہائی زیادہ شدید‘ (کریٹیکل) کر دیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی برطانیہ کے اہم مقامات پر فوج تعینات کرنے کی تیاری بھی شروع کر دی گئی ہے۔
اس اقدام کی وجہ مانچسٹر میں پیر کی رات ایک کنسرٹ کے اختتام پر ہونے والا بم حملہ ہے، جس میں بائیس افراد مارے گئے تھے۔ پولیس نے اس کارروائی کی ذمہ داری بائیس سالہ لیبیائی نژاد برطانوی شہری سلمان عبیدی پر عائد کی ہے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق عبیدی مانچسٹر میں ہی پیدا ہوا تھا جبکہ اس کے والدین مقتول کرنل قذافی کے دور اقتدار سے بھاگ کر برطانیہ میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔
داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے تاہم ابھی تک اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ منگل کے دن پولیس نے مانچسٹر میں مختلف مقامات پر چھاپہ مار کارروائی بھی کی۔ اطلاع کے مطابق اس دوران عبیدی کے گھر پر بھی چھاپہ مارا گیا۔
مانچسٹر حملے کے مناظر
01:15
میڈیا رپورٹوں کے مطابق عبیدی بزنس کی تعلیم حاصل کر رہا تھا تاہم بعد ازاں اس نے یہ سلسلہ ترک کر دیا تھا جبکہ وہ انتہا پسندی کی طرف راغب ہو گیا تھا۔
گریٹر مانچسٹر پولیس کے ڈپٹی چیف کانسٹیبل آئن پیلِنگ نے بدھ کے دن صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اس کیس کے انتہائی تیزی کے ساتھ تفتیش جاری ہے جبکہ اس دوران پولیس اہلکاروں کو کئی اہم سراغ بھی ملے ہیں۔ انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ اس حملے کے بارے میں مکمل حقائق جلد ہی سامنے آ جائیں گے۔
مانچسٹر پولیس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سکیورٹی کے لیول کو بڑھانے کی وجہ سے تحقیقات میں مدد ملے گی۔ مانچسٹر حملہ برطانیہ کی تاریخ میں جولائی سن دو ہزار پانچ کے بعد ہونے والا بدترین حملہ ہے۔ تب لندن ٹرانسپورٹ سسٹم پر منظم حملوں کے باعث باون افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
ادھر امریکا کے سابق وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے خبردار کیا ہے کہ مستقبل میں یورپ کو مزید دہشت گردانہ حملوں کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ مانچسٹر حملے پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شام اور عراق میں داعش کی شکست کے نتیجے میں یہ جنگجو بین الاقوامی سطح پر اپنے حملوں میں تیزی لے آئیں گے۔
جارج بش اور باراک اوباما کے دور میں وزیر دفاع کے منصب پر فائز رہنے والے گیٹس نے واشنگٹن کانفرنس میں مزید کہا کہ یہ جہادی اپنی حکمت عملی بدلیں گے، جس کے لیے عالمی برادری کو تیار رہنا چاہیے۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔