مزید دس ہزار سے زائد ترک ملازمین نوکریوں سے برخاست
30 اکتوبر 2016ترکی میں جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد سے حکومتی اقدامات اور تفتیش کے نتیجے میں دس ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو برخاست کیا گیا ہے۔ برخاست کیے جانے والوں میں اعلیٰ ماہرینِ تعلیم، سینیئر ٹیچرز اور محکمہٴ صحت کے ملازمین بھی شامل ہیں۔ جولائی کی بغاوت کے بعد ترک حکومت نے مذہبی مبلغ فتح اللہ گولن کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔
ہزاروں ملازمین کی یہ برخواستگی ملک میں نافذ ایمرجنسی قانون کے تحت کی گئی ہے۔ ملازمتوں سے فارغ کیے گئے ملازمین کے نام سرکاری گزٹ میں بھی شائع کر دیے گئے ہیں۔ ناکام بغاوت کے بعد سینتیس ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ ایک لاکھ کے قریب ملازمین معطل ہیں۔ بغاوت کے بعد سے حکومت معمولی سے شبے کی بنیاد پر بھی کسی ملازم کو فوری طور پر معطل کرنے سے گریز نہیں کر رہی۔ حکومتی کوشش ہے کہ فتح اللہ گولن کے ہر حامی کو سرکاری ملازمت سے فارغ کر دیا جائے۔
ایردوآن حکومت سرکاری ملازمین کی تطہیر کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کو بھی نکیل ڈالنے کی کوشش میں ہے۔ تازہ حکومتی نوٹیفیکشن کے مطابق مزید پندرہ میڈیا ہاؤسز بند کر دیے گئے ہیں۔ ان میں سے بیشترکا تعلق کردش آبادی والے جنوب مشرقی علاقے سے ہے۔ جولائی سے اب تک 160 سے زائد ذرائع ابلاغ کے اداروں کو کام کرنے سے روکا جا چکا ہے۔
اسی طرح حکومتی حکم کے تحت یونیورسٹیوں کے لیے ریکٹر کے انتخاب کا قانون بھی تحلیل کر دیا گیا ہے۔ ریکٹر کو یونیورسٹی کے اندر ہونے والے الیکشن کے ذریعے منتخب کیا جاتا تھا۔ نئے قانون کے تحت ہائی ایجوکیشنل بورڈ ایک سے زائد نامزدگیاں صدر کو روانہ کرے گا۔ صدر رجب طیب ایردوآن اپنی مرضی و منشا سے ان میں سے کسی ایک کو ریکٹر کے عہدے پر تعینات کریں گے۔
ترکی میں کریک ڈاؤن پر اُن کے مغربی اتحادی اور انسانی حقوق کے ادارے اپنی ناراضی اور خفگی کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ایمرجنسی کی آڑ میں رجب طیب ایردوآن مخالف آوازوں کو بند کرنے کی پوری کوشش میں مصروف ہیں۔ ترک حکومت اپنے تمام اقدامات کو انصاف پر مبنی اور جائز قرار دیتی ہے۔