مزید دو ملین افغان باشندوں کو امدادی خوراک کی ترسیل منقطع
5 ستمبر 2023
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کی طرف سے مالی وسائل کی شدید کمی کے باعث رواں ماہ سے مزید دو ملین افغان باشندوں کو مہیا کی جانے والی امدادی اشیائے خوراک کی ترسیل منقطع کر دی جائے گی۔
اشتہار
عالمی خوراک پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کی طرف سے منگل پانچ ستمبر کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ ادارہ مالی وسائل کی شدید کمی کے نتیجے میں اور بہت مجبور ہو کر رواں ماہ مزید دو ملین افغان شہریوں کو مہیا کی جانے والی امدادی اشیائے خوراک کی تقسیم روک دے گا۔
اس طرح ایسے افغان باشندوں کی تعداد اب دس ملین ہو جائے گی، جو صرف رواں برس کے دوران ہی عالمی خوراک پروگرام کی طرف سے ملنے والی امداد کی بندش کے متاثرین ہوں گے۔
’دستیاب مالی وسائل بہت ہی کم‘
افغانستان میں عالمی خوراک پروگرام کی ڈائریکٹر سیاؤ وے لی کے مطابق، ''ہم اپنے پاس موجود بہت ہی کم وسائل کے باعث اب اس قابل نہیں رہے کہ ان تمام افغان شہریوں کو امداد کے طور پر اشیائے خوراک مہیا کر سکیں، جنہیں انتہائی حد تک محرومی کا سامنا ہے۔‘‘
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اس بارے میں اپنی رپورٹوں میں بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے ڈبلیو ایف پی کی طرف سے مہیا کی جانے والی امداد کی اس تازہ ترین بندش کا مطلب یہ ہو گا کہ کچھ عرصہ قبل اپنے بچوں کو جنم دینے والی یا مستقبل میں مائیں بننے والی تقریباﹰ 1.4 ملین افغان خواتین کو اب خاص طور پر تیار کردہ وہ امدادی خوراک دستیاب نہیں ہو سکے گی، جس کا مقصد ایسی خواتین اور ان کے بچوں میں غذائیت کی کمی کو روکنا ہے۔‘‘
چھ ماہ کے لیے ایک بلین ڈالر درکار
ورلڈ فوڈ پروگرام کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسے اگلے چھ ماہ کے لیے ایک بلین ڈالر کی اشد ضرورت ہے تاکہ 21 ملین افغان باشندوں کو ان کی زندگیاں بچانے کے لیے امدادی اشیائے خوراک مہیا کی جا سکیں اور ان کی غذائی ضروریات کسی حد تک پوری کی جا سکیں۔
ہندوکش کی ریاست افغانستان کو گزشتہ چالیس سال سے جاری خونریز داخلی تنازعے کے اثرات کے ساتھ ساتھ انتہائی بدحال معیشت اور مسلسل شدید ہوتے جا رہے ماحولیاتی بحران کا بھی سامنا ہے۔
اس تناظر میں عالمی خوراک پروگرام نے مالی وسائل مہیا کرنے والے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آئندہ سالانہ اجلاس کے موقع پر افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امدادی کارروائیوں کے لیے فنڈز کی فراہمی کو اپنی ترجیحات کا حصہ بنائیں۔
م م / ا ا (ڈی پی اے)
افغانستان میں بے سہارا معاشرتی زوال
طالبان نے جب سے افغانستان میں حکومت سنبھالی ہے تب سے بین الاقوامی سطح پر تنہا ہو کر رہ گیا ہے۔ اس ملک کی صورت حال ابتر ہے۔ نصف آبادی فاقوں پر مجبور ہے اور حکومت خواتین کے حقوق کو محدود کرنے میں مصروف ہے۔
تصویر: Ahmad Sahel Arman/AFP
بہت کم خوراک
ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق افغانستان کی نصف آبادی کو خوراک کی شدید کمیابی کا سامنا ہے۔ لوگ بھوک اور خوراک کی دستیابی پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ لوگوں کو اب چین سے بھی امدادی خوراک فراہم کی جا رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک ترجمان کے مطابق افغانستان میں بھوک کی جو سنگین صورت حال ہے، اس کی مثال نہیں دی جا سکتی۔ ترجمان نے بھوک سے مارے افراد کی تعداد بیس ملین کے قریب بتائی ہے۔
تصویر: Saifurahman Safi/Xinhua/IMAGO
خشک سالی اور اقتصادی بحران
سارے افغانستان میں لوگوں شدید خشک سالی اور معاشی بدحالی کی سنگینی کا سامنا کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک ماہر ایتھنا ویب کا کہنا ہے کہ ورلڈ فوڈ پروگرام بائیس ملین افغان افراد کی مدد کر چکا ہے۔ مزید امداد جاری رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کو ایک ارب تیس کروڑ درکار ہیں اور ورلڈ فوڈ پروگرام کا امداد جاری رکھنا اس پر منحصر ہے۔
تصویر: Javed Tanveer/AFP
انتظامی نگرانی سخت سے سخت تر
طالبان نے حکومت سنبھالنے کے بعد اپنے سابقہ دور کے مقابلے میں اعتدال پسندانہ رویہ اختیار کرنے کا عندیہ دیا تھا لیکن بتدریج ان کے اس دعوے کی قلعی کھلتی جا رہی ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کو سخت تر پابندیوں کا سامنا ہے۔ انہیں سیکنڈری اسکولوں تک کی رسائی سے روک دیا گیا ہے۔ تنہا اور بغیر مکمل برقعے کے کوئی عورت گھر سے نہیں نکل سکتی ہیں۔ تصویر میں کابل میں قائم چیک پوسٹ ہے۔
تصویر: Ali Khara/REUTERS
نئے ضوابط کے خلاف احتجاج
افغانستان کے قدرے لبرل علاقوں میں نئے ضوابط کے نفاذ کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک احتجاج بینر پر درج ہے، ’’انہیں زندہ مخلوق کے طور پر دیکھا جائے، وہ بھی انسان ہیں، غلام اور قیدی نہیں۔‘‘ ایک احتجاجی بینر پر درج ہے کہ برقعہ میرا حجاب نہیں۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP
ایک برقعہ، قیمت پندرہ ڈالر
کابل میں ایک برقعہ فروش کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے نئے ضوابط کے اعلان کے بعد برقعے کی قیمتوں میں تیس فیصد اضافہ ہوا ضرور لیکن اب قیمتیں واپس آتی جا رہی ہیں لیکن ان کی فروخت کم ہے۔ اس دوکاندار کے مطابق طالبان کے مطابق برقعہ عورت کے لیے بہتر ہے لیکن یہ کسی عورت کا آخری انتخاب ہوتا ہے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP
ریسٹورانٹ میں اکھٹے آمد پر پابندی
مغربی افغانستان میں طالبان کے معیار کے تناظر میں قندھار کو لبرل خیال کیا جاتا ہے، وہاں مرد اور عورتیں ایک ساتھ کسی ریسٹورانٹ میں اکھٹے جانے کی اجازت نہیں رکھتے۔ ایک ریسٹورانٹ کے مینیجر سیف اللہ نے اس نئے حکم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس حکم کے پابند ہیں حالانکہ اس کا ان کے کاروبار پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سیف اللہ کے مطابق اگر پابندی برقرار رہی تو ملازمین کی تعداد کو کم کر دیا جائے گا۔
تصویر: Mohsen Karimi/AFP
بین الاقوامی برادری کا ردِ عمل
طالبان کے نئے ضوابط کے حوالے سے عالمی سماجی حلقوں نے بااثر بین الاقوامی کمیونٹی سے سخت ردعمل ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ صنعتی ممالک کے گروپ جی سیون کے وزرائے خارجہ نے ان ضوابط کے نفاذ کی مذمت کی ہے اور طالبان سے ان کو ختم کرنے کے فوری اقدامات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔