مزید سعودی خواتین ڈرائیونگ پابندی کی خلاف ورزی کریں گی
17 جون 2011ایک ماہ قبل منال الشریف نامی سعودی خاتون نے سعودی عرب میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کے خلاف احتجاجاً گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ کر اور گاڑی ڈرائیو کر کے ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا۔ سعودی حکّام تو اس قدر بوکھلا گئے کہ انہوں نے منال کو وقتی طور پر حراست میں لے لیا تھا۔ اب شہنشاہوں کی اس مملکت میں مزید خواتین نے منال کے نقشِ قدم پہ چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یہ نئی تحریک دو ماہ پہ محیط اس آن لائن مہم کا حصہ ہے جس کو عرب ممالک میں جمہوریت کے قیام کے لیے جاری ’عرب اسپرنگ‘ کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب میں عورتوں کے گاڑی چلانے پر پابندی ہے۔ اس پابندی کی خلاف ورزی وہ خواتین کر رہی ہیں جنہوں نے بیرون ملک ڈرائیونگ لائسنس حاصل کیے ہیں۔
اس حوالے سے سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ فیس بک پر ’ویمن ٹو ڈرائیو‘ نامی ایک پیج پر کہا گیا ہے کہ جمعہ کے روز مزید خواتین گاڑی چلائیں گی اور یہ مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک شاہی فرمان کے ذریعے اس پابنذی کو اٹھا نہیں لیا جاتا۔
انسانی حقوق سے متعلق سعودی اور بین الاقوامی تنظیمیں سعودی عرب میں خواتین کے گاڑی چلانے پر پابندی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتی ہیں۔ اس پابندی کے علاوہ عورتوں پر سر ڈھانپنے اور نوکریوں کے حصول کے حوالے سے کئی قدغنیں لگی ہوئی ہیں۔ عورتوں کو نقل و حمل کے لیے یا تو پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنا پڑتی ہے یا پھر ڈرائیور رکھنے پڑتے ہیں۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق اس نوع کی پابندیاں عوتوں کا مردوں پر انحصار بڑھا دیتی ہیں۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’سعودی عرب کے حکّام کو چاہیے کہ وہ خواتین سے دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح پیش آنا چھوڑ دیں۔‘
خیال رہے کہ سعودی عرب میں کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو خواتین کو گاڑی چلانے سے روکتا ہو، تاہم سعودی وزارتِ داخلہ ایک مذہبی فتوے کی بنیاد پر خواتین کو ڈرائیونگ سے روکتی ہے۔
سن 1990 میں بھی اسی نوعیت کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جب پندرہ خواتین نے سعودی دارالحکومت ریاض میں ایک قافلے کی صورت میں گاڑیاں چلا کر حکّام کو ششدر کر دیا تھا۔
رپورٹ: شامل شمس⁄ خبر رساں ادار
ادارت: عابد حسین